جادووہ جوسرچڑھ کے بولے

 ہر اچھا کام خود بولتا ہے اسے کسی پبلسٹی کی بیساکھی کی ضرورت نہیں پڑتی ایوب خان کے دور کے اختتام پر ان کی حکومت کے اندر کسی سیانے کو یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر ان کے دس برسوں کے دور حکومت میں کیے جانے والے ترقیاتی کاموں کی پبلسٹی کی جائے تو کیا مضائقہ ہے چنانچہ ڈکیڈ آف ریفارمزکے نام پر ایک عظیم الشان پبلسٹی کا پروگرام مرتب کیا گیا یقینا ایوبی دور میں کافی ترقیاتی کام ہوئے تھے پر اتنے بھی نہیں ہوئے تھے کہ جتنی ان کی پبلسٹی کردی گئی چنانچہ اس کا بڑا منفی عوامی ردعمل آیا اور کئی لوگوں کے خیال میں وہ پبلسٹی کی مہم ایوب خان کے سیاسی تابوت کی آخری کیل ثابت ہوئی ہماری دانست میں دو سال کا عرصہ اتنا قلیل عرصہ ہوتا ہے کہ اس میں کسی بھی حکومت کے اچھے برے کام کا صحیح پتہ نہیں چلتا تاہم پھر بھی کچھ منصوبے اور کام ایسے ہوتے ہیں کہ وہ بذات خود بولتے ہیں اس کے لئے کسی کو متوجہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں اور وہ کام ایسے ہیں کہ عوام کو اپنی زندگی میں تبدیلی محسوس ہو ان کی زندگی میں آسانی آئے اور ان کے کام سہولت کیساتھ سرانجام پائیں‘ جس روز سے پولیس میں تھانے دار نے اور تحصیل میں تحصیلدار نے پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس پیدل یا سائیکل پر کسی کام کے لئے آنے والے سائل کوبھی کر سی پر بیٹھنے کی پیشکش کرنا شروع کر دی جس دن عدالتوں کے ریڈروں نے پیسے لے کر مقدمات کی تاریخیں بدلنے کا کام چھوڑ دیا۔

 جس روز سے پولیس نے اشیائے خوردنی کے ذخیرہ اندوزوں کے گودام سیل کرنا شروع کر دئیے جس روز سے ان جائیدادوں کی نیلامی کا کام شروع کردیا گیا کہ جو رشوت یا کمیشن کی کمائی سے تعمیر کی گئی ہیں جس دن سے حصہ بقدر جثہ کے فارمولے پر حکومت ٹیکس وصول کرنا شروع کر دے گی جس دن سے اس ملک کے حکمران اپنا طرز زندگی ملک کے عام آدمی کی طرح اپنا لیں گے جس روز سے حکومت کی رٹ واقعی قائم ہو جائے گی اور کسی تاجر کی اتنی جرات نہیں ہو گی کہ وہ اپنی من مانی سے اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ کرے تو اس دن سے لوگ خود ہی سمجھ لیں کہ ملک نے واقعی صحیح معنوں میں ترقی کر لی ہے اور اب آتے ہیں ایک نہایت ہی تشویشناک ناک خبر کی طرف اور وہ یہ ہے کہ پاکستان دشمن دہشت گرد تنظیموں نے آپس میں اتحاد کر لیا ہے اور اس ضمن میں بھارتی خفیہ ایجنسی را اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کا ایک مشترکہ اجلاس حال میں افغانستان کے صوبہ کنڑ میں منعقد ہوا ایک اطلاع کے مطابق ان دو ایجنسیوں کے کرتا دھرتوں نے کالعدم تحریک طالبان جماعت الاحرار اور حزب الاحرارکو کام سونپا ہے وہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز پر حملے کریں اس ملک کے جو عناصر اپنے دل کے اندر بھارت کے واسطے نرم گوشہ رکھتے ہیں ان کو اب ہوش آ جانا چاہئے،بھارتی حکومت کسی صورت پاکستان کی ترقی اور خوشحالی برداشت نہیں کر سکتی وہ قیام پاکستان سے ہی اس ملک کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔

 کانگریس اور بھارتی جنتا پارٹی میں بس فرق یہ ہے کہ اولالذکر میٹھی دشمنی پر یقین رکھتی تھی جبکہ ثانیالاذکر کھلی اسلام دشمنی کی قائل ہے۔ پاکستان کا وجود بھارت اور وہاں پر آباد ہندو انتہا پسندوں کے لئے شروع دن سے ہی ناقابل برداشت ہے اور انہوں نے اپنی اس ذہنیت کا مظاہرہ کئی مواقع پر کیا ہے پاکستان پر کئی جنگیں مسلط کی ہیں اور وطن عزیز کی ترقی کے سفر میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے اب بھی بھارت سرگرم عمل ہے اس کی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح پاکستان کو ایسی حالت میں رکھا جائے کہ جہاں اس کی توجہ اپنی ترقی اور خوشحالی کی بجائے بھارت کی مخاصمانہ رویئے پر ہی مرکوز رہے تاہم بھارت کی ان کوششوں کو دانشمندانہ پالیسیوں سے ناکام بنایا جا سکتا ہے۔