توشہ خانہ کیسز میں آج کل احتساب کی عدالت میں سابق حکمرانوں کے خلاف کاروائی جا ری ہے اور ان میں بعض افراد پر عنقریب فرد جرم لگنے والی ہے پر یہ کاروائی جن رہنماو¿ں کے خلاف کی جا رہی ہے وہ تو آٹے میں نمک کے برابر ہیں جن افراد کے خلاف اس ضمن میں قانونی کاروائی کی جا رہی ہے ان سے پیشتر بھی اس ملک کے کئی حکمرانوں نے توشہ خانہ کے بارے میں رولز کی دھجیاں اڑائی ہیں ان لوگوں سے آج تک کسی نے نہیں پوچھامزہ تو تب آتا کہ اس ضمن میں انکوائری کا دائرہ وسیع کر کے سن ستر سے لے کر اب تک اس ملک کے جو بھی حکمران رہے ہیں ان کو بھی شامل تفتیش کیا جاتا کیونکہ ہماری سیاست میں اکثر خرابیاں انیس سو ستر کے بعد پیدا ہوئی ہیں اس سے پہلے ہمارے حکمران کوئی بھی ایسا کام نہیں کرتے تھے کہ جو ان کی بے عزتی کا سبب بنے جب بھی کوئی حکمران بھلے وہ سیاسی حکمران ہو یا صفحہ اول کا بیورو کریٹ ۔سرکاری حیثیت میں کسی سرکاری دورے پر بیرون ملک جاتا ہے تو تجربہ یہ بتاتا ہے کہ میزبان حکومت کے کرتا دھرتا انہیں اکثر قیمتی تحائف سے نوازتے ہیں رولز اور ریگولیشنز یہ کہتے ہیں کہ وطن واپسی پر حکمرانوں اور بیوروکریٹس کو فورا ًسے پیشتر اس قسم کے تحائف کی تفصیل حکومت کو فراہم کرکے انہیں سٹیٹ بینک کے توشہ خانے میں جمع کرادیا جائے اس میں کوئی شک نہیں کہ ان تحفوں پر پہلا حق ان افراد کا ہوتا ہے کہ جنہیں یہ ملے ہوتے ہیں پر سرکاری طریقہ کار کچھ اس طرح وضع کیا گیا ہے کہ حکومت ایک کمیٹی بناتی ہے ۔
جو مارکیٹ ویلیو کے حساب سے ان تحفوں کی قیمت متعین کرتی ہے اور اگر اس متعین شدہ قیمت کی ایک چوتھائی رقم متعلقہ افراد سرکاری خزانے میں جمع کرا دیں تو وہ پھر اس صورت میں ان تحفوں کے مالک بن سکتے ہیں بصورت دیگر حکومت پھر ان کو نیلام کرتی ہے اور اس سے حاصل شدہ رقم کو سرکاری خزانے میں جمع کرا دیا جاتا ہے کاغذات کی حد تک تو یہ رولز ریگولیشنز اپنی جگہ موجود ہیں لیکن سن انیس سو ستر کے بعد ان پر شاذ ہی کسی حکمران یا بیوروکریٹ نے عملدرآمد کیا ہو۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بیرونی ممالک کے دوروں میں انہیں جو تحفے ملتے ہیں وہ وطن واپسی پر انہیں اپنے گھر لے جاتے ہیں اور انہیں اپنے ذاتی استعمال میں لے آتے ہیں یہ روش اب اتنی عام ہو چکی ہے کہ حکمران اس پر عمل کرنے کو کوئی عار نہیں سمجھتے جن حکمرانوں کے خلاف احتساب عدالت میں کارروائی ہو رہی ہے۔
اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ انہوں نے اس ضمن میں رولز اور ریگولیشن کی خلاف ورزی کی ہے تو ان کے خلاف سخت کاروائی ہونی چاہئے اور انہیں نشان عبرت بنانا چاہئے تاکہ اس ملک میں آئندہ کوئی حکمران اس قسم کی جراءت نہ کر سکے البتہ اگر احتساب عدالت اس قسم کے کیسز کی ٹرائل کو صرف زیر سماعت مقدمات تک ہی محدود رکھے گی تو اس میں ملوث مجرم یہ شور مچائیں گے کہ ان کے خلاف انتقامی کاروائی کی گئی ہے اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا گیا ہے لہذا ضروری ہے کہ اس ضمن میں انیس سو ستر سے لے کر اب تک دیگر سابقہ حکمرانوں کا بیرونی ملکوں کے دوروں کا ریکارڈ بھی دیکھا جائے اور اگر انہوں نے بھی میزبان حکومتوں سے تحفے وصول کرکے انہیں توشہ خانہ میں جمع نہیں کرایا تو اس پر بھی کاروائی ضروری ہے۔آئین، قانون اور اصول و ضوابط کی پیروی حکمرانوں اور اعلیٰ افسروں سمیت سب پر لازم ہے جب اوپر سے قانون کی پاسداری ہوگی تب ہی ملک میں قانون کی بالادستی قائم کی جاسکے گی۔