ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور سعودی عرب سے بھی ہمارے دیرینہ دوستانہ تعلقات ہیں تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ہم پر کبھی مشکل وقت آیا تو یہ دونوں ممالک ہمارے شانہ بشانہ کھڑے پائے گئے ہم ان دونوں ممالک کو کسی صورت میں بھی نالاں کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے ‘عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان جو تعلقات پروان چڑھے ہیں اس سے اسلامی ممالک کیلئے مشکلات بڑھ گئی ہیں ، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ سعودی عرب اور امارات میں 25 لاکھ مقیم پاکستانی تارکین وطن ہیں جن کے خون پسینے کی کمائی ترسیلات زر کی ضمانت دیتی ہے ، عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے اس کے پیچھے بلاشبہ امریکہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ عرب امارات کے کئی مقامات پر امریکہ نے خفیہ فوجی اڈے ے بنا رکھے ہیں کہ جہاں جدیدترین اور مہلک ترین اسلحہ کے انبار لگا دئیے گئے ہیں یہ سب کچھ آخر کس لئے ہے ظاہر ہے اس پوری مشق کا مقصد یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے پاو¿ں مزیدمضبوط کر دئیے جائیں اور دھیرے دھیرے مشرق وسطیٰ کے تمام عرب ممالک کو یکے بعد دیگرے اس بات پر سیاسی اور عسکری دباو¿ کے نیچے مجبور کر دیا جائے کہ وہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیں اس مسئلے پر ہمارا موقف کیا ہونا چاہیے اس پر ایک مفصل بحث و مباحث ضروری ہے اور اس بحث کی بہترین جگہ پار لیمنٹ ہے ساتھ ہی ساتھ ذرائع ابلاغ کو مختلف خارجہ امکانات پر بحث کرنے کی ضرورت ہے عوام کو یہ سمجھانا بھی ضروری ہے کہ بعض امور میں خارجہ پالیسی معاشی تقاضوں کے تابع ہوتی ہے ۔
پر بسا آرزو کہ خاک شدہ پارلیمنٹ میں اہم امور پر بحث نہ ہونے کے برابر ہے اس کے اراکین کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف دشنام طرازی کرنے سے وقت ملے تو وہ اہم قومی امور پر بحث کریں وہ تو کسی اور ہی چکر میں مبتلا ہیں پارلیمانی کاروائی کودرخور اعتنا نہیں سمجھتے‘ اس لمبی تمہید کا لکھنااس لیے ضروری تھا کہ آج کل ہماری خارجہ پالیسی کو از سر نو تشکیل دینے کا وقت ہے جس میں نئے حالات کی مناسبت سے تمام امکانات کاجائزہ لے کر اقدامات کرنا شامل ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ہماری معیشت زبوں حال ہے جو ممالک معاشی طور پر خود کفیل ہوتے ہیں دنیا کے دیگر ممالک صرف انہی کو توجہ دیتے ہیں آج کل کی دنیا میں اگر طاقت اور توقیر کا کوئی پیمانہ موجود ہے تو وہ صرف معیشت ہے اب دیکھئے نا چین کی ہی مثال لے لیجئے پچاس سال قبل اس ملک میں 99 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے تھے پچاس برسوں میں چین نے ایسی معاشی حکمت عملی کو اپنایا کہ آج وہ اس پوزیشن میں ہے کہ وہاں اب صرف ایک فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے چین میں مڈل کلاس کا حجم دنیا کے سب ممالک سے زیادہ بڑھ گیا ہے ‘اس وقت اگر ترقی کا کوئی ماڈل ہے تو وہ چین ہے جس نے مشکل حالات سے نبرد آزما ہونے کے بعد ایسا کایا پلٹ دیا کہ دنیا حیران ہے ۔ہم پہلے بھی اپنے کالم میں اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ ہمیں اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانا ہوگا جو کہ اب بفضل خدا 23 کروڑ تک پہنچ چکی ہے اور اگر یہی عالم رہا تو 2050 میں اس ملک میں تل دھرنے کو جگہ نہ ملے گی اس پر طرہ یہ کہ 23 کروڑ کی آبادی میں آج دس کروڑ افراد ناخواندہ ‘ تعلیم تو ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے ۔ اس تمام بحث کا حاصل یہ ہے کہ اس وقت خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کو زیادہ موثر اور فعال بنانے کی ضرورت ہے۔