مولانا فضل الرحمن صاحب کو پی پی پی اور نواز لیگ دونوں کے لیڈروں سے گلہ ہے کہ وہ اپنے وعدوں کا پاس نہیں رکھتے اور عین بیچ منجھدار ان کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں اس لئے اب اگر ان دو جماعتوں سے ان کا کوہی سمجھوتا ہوگا تو وہ تحریری شکل میں ہو گا مولانا صاحب نے اب کی دفعہ جو سیاسی حکمت عملی بنائی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں وہ چھوٹی سیاسی پارٹیوں کو یکجا کر کے ان کا ایک الائنس بنا رہے ہیں دوسرے مرحلے میں وہ پھر مندرجہ بالا دو پارٹیوں سے معاملات طے کریں گے انہوں نے جو اپنا الائنس بنا یا ہے اس میں اے این پی،قومی وطن پارٹی،اور بی این پی شامل ہیں‘ مولانا صاحب کے اس نئے سیاسی پینترے نے پی پی پی اور نواز لیگ دونوں کو کافی وختے میں ڈال دیا ہے وہ جانتے ہیں کہ اگر مولانا کا یہ الائنس آئندہ الیکشن کے اکھاڑے میں ایک تیسرے گروپ کی حیثیت سے اترا تو اس سے ان کا ووٹ بنک تقسیم ہو سکتا ہہے کہ جس کا پھر فائدہ حکمران پارٹی کو ہو گا یہی وجہ ہے کہ آج پی پی پی اور نواز لیگ دونوں مولانا صاحب سے گفت و شنید کر رہی ہیں۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے اسے اس صورتحال پر بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں سیاست میں کوئی بھی حرف آخر نہیں ہوتا نوابزادہ نصراللہ خان صاحب کی طرح مولانا صاحب بھی ہر وقت مفاہمت کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور میدان سیاست میں ان کے مقابلے میں زرداری صاحب اور نواز شریف صاحب ابھی طفل مکتب ہیں۔ اسے حکومت اپنی خوش قسمتی تصور کرے کہ کوروناوایرس ٹڈی دل کی یلغار اور سیلابوں جیسی قددتی آفات نے اسے سستانے کا موقع فراہم کیا اور اس کے ہاتھ یہ بہانہ لگ گیا ہے کہ وہ تو عوامی فلاح کیلئے بہت کچھ کرنا چاہتی تھی۔
پر ان قدرتی آفات نے اس کا رستہ روکا خدا لگتی تو یہ ہے کہ اس کے وزراءکی نا تجربہ کاری اور ضروری ہوم ورک نہ کرنے کی وجہ سے حکومت سے کافی حماقتیں سر زد ہوتی رہی ہیںجن کو میڈیا اُجاگر کرتا آرہا ہے‘بے جا نہ ہوگا اگر ہم اس بات کا بھی یہاں ذکر کر لیں کہ بائیں بازو کی تین ترقی پسنداورقوم پرست سیاسی جماعتوں کے درمیان ملک سے جاگیر دارانہ سرمایہ دارانہ اور استحصالی نظام کے خاتمے کیلئے ایک یونائیٹڈ فرنٹ بنانے کی بات چل نکلی ہے اس سلسلے میں نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلی بلوچستان عبدالمالک ‘سینٹر طاہر بزنجو مزدور کسان پارٹی کے سربراہ افضل شاہ خاموش اور عوامی ورکرز پارٹی کے سربراہ یوسف مستی خیل کے درمیان ابتدائی مذاکرات ہوئے ہیں اور بہت جلد ان جماعتوں کے ادغام اور متحدہ سیاسی جماعت کے بنانے کے بارے میں اعلان کر دیا جائے گا یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ نئی متحدہ سیاسی جماعت کو عوامی نیشنل پارٹی کا نام دیا جائے‘ اس ملک میں بائیں بازو کی پارٹیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ مختلف سیاسی ادوار میں مختلف سیاسی پارٹیاں عالم وجود میں آتی رہی ہیں جن کے رہنما اپنے آپ کو سوشلسٹ قرار دیتے تھے اوروہ غریبوں کا دم بھرتے تھے حتیٰ کہ بعض سرمایہ دارانہ پس منظر رکھنے والے سیاستدانوں نے بھی اپنے آپ کو سوشلسٹ قرار دیا ان میں سے بعض افراد اقتدار میں بھی آئے اور انہوں نے بعض شعبوں میں اصلاحات بھی کیں پر وہ نیم دلانہ تھیں لہذا ان سے غریب عوام کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئی ‘اس ملک کا دوسرا المیہ یہ ہے کہ ہم میں کافی حد تک اخلاقیات کا فقدان ہے ہمارے باطن اور ظاہر میں کافی فرق ہے اور اسی دوغلا پن کی جھلک ملک کی سیاست اور ایوان اقتدار میں بھی نظر آتی ہے ایک مشہور کہاوت ہے کہ جیسا منہ ویسی چپیڑ اب تک اس ملک میں ارباب اقتدار عوامی توقعات پر پورا نہیں اترے عوام کے مسائل ختم یا کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔