ہمارے وزیر خارجہ صاحب نے کچھ عرصہ پہلے کشمیر کے مسئلے پر او آئی سی کے نرم رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا واقفان حال کے مطابق اس پر سعودی حکام نے جو کہ اس ادارے کے روح رواں ہیں نالاں ہو کر مبینہ طور پر ہمیں تیل کی مفت سپلائی بند کر دینے اور اس نے ہمیں جو قرضے دئیے تھے ان کی واپسی کا اشارہ دیا ‘ ذمہ دار مناصب پر متعین سرکاری اہلکاروں کو فی البدیہہ تقریر کرنے کی بجائے پہلے سے لکھی ہوئی تقریر پڑھنی چاہیے ڈپلومیٹس کے بارے میں یہ کہاوت مشہور ہے کہ اچھا ڈپلومیٹ کسی بھی سوال کے جواب میں غیر مبہم جواب نہیں دے گا مثلا اگر وہ یہ کہے ہاں تو اس کا مطلب ہوگا شاید اور اگر وہ یہ کہے کہ شایدتو اس کا مطلب ہوگا نہیں‘ وہ شخص ڈپلومیٹ کہلایا ہی نہیں جا سکتا کہ جو کسی سوال کے جواب میں فوراً ہاں یا نہیں کہہ دے ایک اچھا ڈپلومیٹ ہمیشہ ہاں اور شاید کے الفاظ استعمال کرتا ہے‘ اسرائیل اور کشمیر کے مسائل پر امریکہ کا جو موقف ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے امریکی وزیر خارجہ کا تازہ ترین بیان امریکہ کی اسرائیل دوستی کی غمازی کرتا ہے انہوں نے دوسرے ممالک کو یہ نصیحت کی ہے کہ وہ عرب امارات کی پیروی کریں اور یہ کہ امریکہ کی خواہش ہے کہ اسرائیل کی جنگی برتری کو یقینی بنایا جائے امریکہ میں یاتو ریپبلکن پارٹی کا فردصدر بنتا ہے اور یا پھر ڈیموکریٹک پارٹی کا اور یہودیوں کا امریکہ کی معیشت اور اس کے ابلاغ عامہ کے اداروں پر اتنا زیادہ کنٹرول ہے کہ ان کی آشیرباد کے بغیر کوئی امریکی بھی امریکہ کا صدر نہیں بن سکتا لہذا یہودیوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا ]امریکہ کے صدر کا بھلا کسی بھی پارٹی سے تعلق کیوں نہ وہ یہودی لابی کے اشاروں پر ہی کام کرے گا لہذا یہ بات بے معنی ہے کہ آئندہ امریکہ کا صدر کون ہوگا۔
کیا ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدارتی الیکشن جیت جائے گا یا اس کی جگہ کوئی اور فرد امریکہ کا صدر بنے گااس میں کوئی شک نہیں کہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر امریکہ اور اسرائیل خفیہ طور پر کام کر رہے ہیں کئی عرب ممالک وقتی فائدے کو سامنے رکھ کر اپنی خارجہ پالیسیاں مرتب کر رہے ہیں جن سے مستقبل میں ان کو بہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔جہاں تک ملک کے سیاسی منظر نامے کا تعلق ہے ارباب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان سیاسی جنگ پارلیمنٹ کے باہر بھی ہو رہی ہے اور پارلیمنٹ کے اندر بھی جو بات ملک کے سنجیدہ حلقوں کے مزاج پر گراں گزر رہی ہے وہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ جیسی مقدس اور مقدم جگہ پر اراکین قومی اسمبلی جس قسم کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ قابل افسوس ہے ملک کو کئی مسائل درپیش ہیں کہ جن پر سیر حاصل بحث ضروری ہے افسوس کہ ان پر مغز ماری کرنے کی بجائے ہمارے اراکین قومی اسمبلی نان ایشوز پر شور و غوغا مچاتے ہیں اگلے روز قومی اسمبلی کے سپیکر اور ایک سابق وزیر اعظم کے درمیان قومی اسمبلی کے فلور پر تو تو میں میں ہوئی جو نہایت افسوس ناک بات ہے، کسی بھی رکن اسمبلی کو سپیکر کے عہدے کی توقیر کو مد نظر رکھنا چاہئے اور سپیکر کے ساتھ توہین آمیز انداز میں بات کرنے سے گریز کرنا چاہئے دوسری طرف سپیکر کا عہدہ ایک ایسا منصب ہے کہ جس پر بیٹھنے والے شخص کو بھی نہایت ہی ٹھنڈے مزاج کا مالک ہونا چاہئے اور اسے ہر قسم کی صورتحال میں صبر اور تحمل کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے اس کا رویہ ہر رکن اسمبلی کے ساتھ مساوی نوعیت کا ہونا چاہئے اور کسی رکن اسمبلی کو یہ تاثر نہیں ملنا چاہئے کہ وہ کسی خاص پارٹی کی طرف داری کر رہے ہیں۔