جب سے موجودہ حکومت برسراقتدار آئی ہے اس نے سکھ کا سانس نہیں لیا اقتدار میں آنے کے فوراً بعد اس نے زبوں حال معیشت کو سنبھالنے کے لئے ادھر ادھر ہاتھ پیر مارے پر اسے کیا پتا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا اس کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دے گی عمران خان کے بدترین سیاسی دشمن بھی اس بات پر ان کو داد دیں گے کہ اس وبا سے نبٹنے کے لیے انہوں نے جو حکمت عملی اپنائی وہ کارگر ثابت ہوئی ابھی اس وبا سے ملک کی پوری طرح جان چھوٹی نہ تھی کہ ٹڈی دل اس پر نازل ہو گئے اور اس کی زراعت کاتیا پانچا کر دیا یہ سب کچھ جیسے کافی نہ تھا کہ ان کے اوپر بارشوں اور سیلابوں کی صورت میں ایک اور آزمائش سے پالا پڑا۔ اب ا گے کی خدا جا نے کیا ہوتا ہے ،شنید یہ ہے کہ ڈینگی مچھر اس ملک پر حملہ آور ہونے کی تیاری کر ر ہے ہیں ان قدرتی آفات نے اگر ایک طرف حکومت کے ترقیاتی کاموں میں خلل ڈالا تو دوسری طرف ان کی وجہ سے اپوزیشن پارٹیوں کے حکومت وقت کے خلاف احتجاجی پروگرام کو بھی بری طرح متاثر کیا ان کے غبارے سے بھی اس نے کافی حد تک ہوا نکال دی اب بارش تھمے کورونا رفع دفع ہو اور ممکنہ ڈینگی کے حملے کا خطرہ ٹلے تو پھر کہیں جا کر اپوزیشن دم لے کر آگے کی سوچے گو مولانا فضل الرحمان کو کافی جلدی ہے کہ موجودہ حکومت کو ایوان اقتدار سے جتنا جلدی چلتا کیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ادھر یہ بات تشویشناک ہے کہ مندرجہ بالا بحرانوں کی وجہ سے ملک کی اقتصادیات 1990 کی دہائی میں واپس چلی گئی ہیں۔کورونا سے قبل مالی توازن سرپلس میں تھا۔
ایف اے ٹی ایف کا خطرہ ہمارے سر پر منڈلا رہا ہے اگر اس نے ہم پر پابندیاں لگا دیں تو پھر ہمیں معاشی طور پر ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا۔ اس لئے اس ضمن میں اپوزیشن کا حکومت کے ساتھ ضروری قانون سازی میں غیر مشروط تعاون کرنا ضروری ہے اگر ایسا نہ ہوا تو اس کا پھر مطلب یہ ہو گا کہ حکومت کی دشمنی میں اپوزیشن کو ملکی سلامتی کا بھی خیال نہیں‘ اب ذرا ایک نظر چند اہم بین الاقوامی امور پر بھی ہو جائے مختلف علاقوں میں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں امریکہ کا کچھ پتہ نہیں چل رہا‘ جاپان اور بھارت کے ساتھ مل کر چین کے خلاف صف بندی کر رہا ہے اس کے رد عمل میں چین سکھم آسام مانی پور میزورام ناگا لینڈ میگا لاگا اور اروناچل پردیش میں آزادی کی تحریکوں کو ہوا دے رہا ہے جن چھوٹی چھوٹی سات بھارتی ریاستوں کا ذکر ہم نے اوپر کی سطور میں کیا ہے وہ تاریخ کی کتابوں میں سیون سسٹرز کے نام سے بھی مشہور ہیں مندرجہ بالا سیاسی صف بندیوں کی مثال ٹائم بموں جیسی ہے ۔
جو دنیا کے مختلف علاقوں میں نصب ہیں اور ان کے پھٹنے سے عالمی امن کا شیرازہ بکھر سکتا ہے۔عالم اسلام کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ ایک صفحہ پر موجود نہیں اسلامی ملکوں کی قیادت میں عقل و فہم کا فقدان ہے ‘1974 کے بعد کہ جب بھٹو نے اسلامی ملکوں کو لاہور میں ہونے والی ایک کانفرنس میں یکجا کیا تھا دوبارہ ان سب کو اکھٹا پھر کوئی نہ کر سکا اور اسی نفاق کی وجہ ہے کہ دنیا کا کوئی ملک کسی مسلم ملک کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا اس صورت حال میں وقت کا تقاضا ہے کہ ہم زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوے سر دست چین کا ساتھ بالکل نہ چھوڑیں روس کے ساتھ اپنے تعلقات اچھے کریں کسی بھی ہمسایہ اسلامی ملک کے ساتھ اپنے مراسم میں بگاڑ نہ آنے دیں اسی طریقے سے ہم اپنے خلاف بھارت کے مذموم عزائم کو شکست دے سکتے ہیں جو دنیا میں ہمیں تنہا کر کے برباد کرنے پر تلا ہوا ہے اوراس کا جواب اسی میں ہے کہ بھارت کی انتہا پسندانہ پالیسیوں سے دنیا کو باخبر رکھتے ہوئے اسے تنہا کرنے کی کوشش کی جائے اور ساتھ ہی عالمی برادری کو اپنا ہمنوا بنانا چاہئے۔