مشرق وسطیٰ کے بدلتے حالات

 یہ عالمی سیاست کا گورکھ دھندا بھی بڑی عجیب شے ہے کسی نے سچ ہی تو کہا ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ایک شاعر نے نے کیا خوب کہا ہے کہ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا آج کل قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں امارات اور اسرائیل تعلقات پر کافی لے دے ہو رہی ہے اس کے حق اور مخالفت میں دلائل دیئے جا رہے ہیں ہمارے قارئین نے بڑے دلچسپ سوالات اٹھائے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی آزادی کی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے دو ہی راستے ہوتے ہیں یا تو یہ کہ دشمن کے ساتھ جنگ کرکے اس سے مقبوضہ علاقے بزور شمشیر خالی کرا لئے جائیں جیسا کہ ہو چن من کی قیادت میں ویت نامیوں نے پہلے فرانس اور پھر امریکیوں کے ساتھ کیا اور بزور شمشیر ان کو مجبور کیا کہ وہ ان کے ملک سے اپنی فوج نکال دیں دوسرا رستہ ہوتا ہے مذاکرات کا اور مذاکرات میں ہمیشہ فریقین کو کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر چل کربعض جگہ اپنے اصولوں پر سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ اب عرب ممالک کیوں اسرائیل کے قریب جا رہے ہیں اور سفارتی تعلقات بحال کررہے ہیں یہ اپنی جگہ اہم سوال ہے ، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسلامی دنیا میں اتحاد اور اتفاق کا فقدان ہے اور یہ بلاکوں میںتسلیم شدہ ہے، ایک بلاک اگر روس کے ساتھ روابط مضبوط کررہا ہے تو دوسرے ممالک امریکہ کے قریبی اتحادیوں میں سے ہیں۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں اہم عنصر مالی اور معاشی فوائد و مفادات ہیں، امریکہ اور ایران کے تعلقات اس وقت اگر چہ کشیدہ ہیں تاہم کسی وقت دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب بھی آنے لگے تھے ، قارئین کو یاد ہو گا کہ کچھ عرصہ قبل جب امریکی صدر نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا تھا تو اس وقت 157 ممالک نے ان کے اس اقدام کی مخالفت کی تھی لیکن اب جبکہ عرب امارات اور اسرائیل کے تعلقات معمول پر آرہے ہیں تو صرف گنتی کے چندو ممالک ہیں کہ جو ان دو ملکوں کی دوستی پر خفا نظر آتے ہیں ہوا کا رخ کافی بدل چکا ہے‘ افریقہ میں سوڈان ایک بہت بڑا اسلامی ملک ہے اور شنید ہے کہ وہ بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کر رہا ہے زمینی حقائق سے ہم چشم پوشی نہیں کر سکتے‘ آج کی دنیا میں ہر ملک اپنے مخصوص سیاسی اور معاشی مفادات کو مدنظر رکھ کر اپنی خارجہ پالیسی مرتب کرتا ہے ۔

اب ذرا دیکھئے نا کہ روس اور چین امریکہ کے کس قدر سخت دشمن ہیں پر دوسری طرف وہ اسرائیل سے اربوں ڈالرز کا فوجی سامان خریدتے ہیں اور ٹیکنالوجی بھی درآمد کرتے ہیں۔آج مسلم دنیا دیگر ممالک سے تقریباً ایک صدی پیچھے رہ گئی ہے نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج دنیا میں کوئی ایسا مسلم قابل ذکر ملک نہیں جس کو ہم رول ماڈل بنا کر اپنی معیشت کومضبوط بنیادوں پر ڈھال سکیں ‘ہماری بے حسی کا عالم تو یہ ہے کہ بیروت میں اتنا بڑا حادثہ ہوتا ہے اور کوئی اسلامی ملک ٹس سے مس نہیں ہوتا کہا یہ جا رہا ہے کہ امارات والے اسرائیل سے اس لیے مراسم قائم کر رہے ہیں کہ وہ اپنی اکانومی کا تیل پر انحصار کم سے کم کرنا چاہتے ہیں اور چونکہ اسرائیل کے پاس وہ ٹیکنالوجی ہے جو کسی دوسرے مسلم ملک کے پاس نہیں ہے لہذٰا وہ اپنے اس مقصد کے حصول کیلئے اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ حقیقت جو بھی ہے تاہم اس سے انکار ممکن نہیں کہ اسلامی ممالک کو آپس میں اتفاق واتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اسی میں ان کی طاقت وعظمت کا راز پوشیدہ ہے۔