بارشیں پہلے بھی ہوا کرتی تھیں جھکڑ پہلے بھی چلتے تھے سیلاب پہلے بھی آیا کرتے تھے پر اتنی تباہی نہیں مچاتے تھے جتنی کہ اب مچاتے ہیں اب کی دفعہ مون سون کی بارشوں سے شاید ہی ملک کا کوئی شہر نقصان سے بچا ہو کسی کو تھوڑا تو کسی کو زیادہ دہ نقصان اٹھانا پڑا۔وزرائے اعلی کو بھلا ڈپٹی کمشنروں کو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ وہ نقصانات کا اندازہ لگائیں کیا یہ ان کے فرائض منصبی میں شامل نہیں کہ وہ ہر وقت اپنے آپ کو باخبر رکھیں کہ ان کے انتظامی دائرہ کار میں کس قسم کا نقصان ہوا ہے اور اس کا تخمینہ کیا ہے سندھ کے وزیر اعلی نے تو کمال ہی کر دیا جوش خطابت میں وہ یہ تک کہہ گئے کہ سیلاب نے تباہی اس لیے مچائی کہ ماضی میں بارش کے قدرتی بہاؤ کی گزر گاہوں پر تجاوزات کھڑی کر دی گئیں وہاں پلازے بنا دئیے گئے متعلقہ حکام نے روزانہ کی بنیاد پر کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے مناسب بندوبست نہیں کیا یہ سب باتیں کہتے ہوئے نہ جانے وہ یہ کیوں بھول گئے کہ گزشتہ دس بارہ سال سے سندھ میں کون سے لوگ حکمران تھے کیا یہ سب کچھ ان کی پارٹی کے دور حکمرانی میں میں نہیں ہوا تو اب وہ گلہ کس سے کر رہے ہیں۔
انہیں تو گلا خود اپنی پارٹی سے کرنا چاہیے وہ تو یہ بھی کہہ گئے کہ سیلاب کے پانی کے بہاؤ کے رستے میں جو بھی رکاوٹ نظر آئے اسے بلڈوز کردیا جائے یہ کہنا تو آسان ہے پر اس پر عملدرآمد کرنا مشکل کیونکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ بلڈنگ مافیا کے لوگوں نے بارش کے پانی کی گزرگاہوں میں کالونیاں بنا رکھی ہیں ان کو گرانے کیلئے کیا وزیر اعلی کے تلوں میں تیل ہے کیا وہ ان سرکاری اہلکاروں اور انجینئرز کو الٹا لٹکا سکتے ہیں کہ جن کی ملی بھگت سے چائنہ کٹنگ کر کے پانی کی قدرتی گزرگاہوں میں رہائشی پلاٹ بنائے گئے تجربے نے ہمیں بتایا ہے کہ اس ملک میں بلڈنگ مافیا اتنا زیادہ مضبوط ہے اور اس کی جڑیں اتنی زیادہ گہری ہیں کہ کوئی بھی ریاستی ادارہ ان پر ہاتھ ڈال کر انہیں راہ راست پر نہیں لا سکتا اس مافیا سے تعلق رکھنے والے افراد کے ہاتھ بڑے لمبے ہیں اور انہوں نے تقریبا تقریبا ہر سیاسی پارٹی میں اتنی زیادہ سرمایہ کاری کی ہوئی ہے کہ ہر سیاسی پارٹی کا قائد ان کی کسی بات کو بھلے وہ جائز ہو کہ ناجائز ٹال نہیں سکتا وہ ان کے آگے مجبور ہے اس پر طرہ یہ کہ کسی بھی شہر میں بشمول کراچی متعلقہ میونسپل کارپوریشن کا صفائی کا عملہ اپنے کام کے ساتھ انصاف نہیں کر رہا وہ روزانہ کی بنیاد پر پانی کی گزرگاہوں اور نالیوں میں گرائے گئے کچرے کو اٹھا نہیں رہا رہی سہی کسر عوام نے پوری کر دی ہے اور وہ اس طرح کہ زبانی کلامی میں تو ہم سب کرتے رہتے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے لیکن راہ چلتے ہوئے ہم ان چیزوں کو سڑکوں پر یا نالیوں میں پھینک دیتے ہیں۔ کہ جنہیں ہمیں کوڑا دان میں ڈالنا چاہئے اس لیے ملک میں سیلاب اور بارشوں سے جو بھی تباہی آئی اس میں اگر ایک طرف متعلقہ حکام ذمہ دار ہیں تو دوسری طرف ہم خود بھی من حیث القوم برابر کے ذمہ دار ہیں یہ ہماری اجتماعی غفلتوں لغزشوں اور بروقت بہت ضروری اقدامات نہ اٹھانے اورکاہلی کا نتیجہ کہ ہر سال اس قسم کی قدرتی آفات کی وجہ سے ہمارا اربوں روپے کا فزیکل انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔
اس ملک میں ہم نے ایک ایسا دور بھی دیکھا ہے کہ جب پبلک سیکٹر یعنی سرکاری شعبے میں کام کرنے والے ادارے اپنے کام سے کماحقہ انصاف کیا کرتے تھے شہر کی میونسپل کمیٹی یا میونسپل کارپوریشن کی صفائی کا عملہ روزانہ دو وقت یعنی صبح اور سہ پہر ہر شہر کی سڑکوں اور نالیوں کی تواتر سے صفائی کرتا بلکہ کراچی کی سڑکوں کو تو رات کو بارہ بجے کے بعد روزانہ دھویاجاتا۔سیانے کہہ گئے ہیں کہ کسی بھی شہر کو ایک خاص حد سے زیادہ آباد نہیں کرنا چاہئے اس ضمن میں ہمیں ایک بات یاد آ رہی ہے اور وہ ہے شاعر مشرق علامہ اقبال اور اٹلی کے ڈکٹیٹر مسولینی کے درمیان روم کے بارے میں ایک بات چیت جب شاعر مشرق اٹلی کے دورے پر گئے تو روم میں ان کی ملاقات اٹلی کے ڈکٹیٹر مسولینی سے ہوئی ان دنوں دنیا بھر میں روم کی خوبصورتی اور عظمت کا چرچا تھا دوران ملاقات مسولینی نے جب علامہ اقبال سے پوچھا کہ ان کو روم کیسا لگا تو اس کے جواب میں شاعر مشرق نے مسولینی سے کہا کہ روم ایک عظیم شہر ہے پر اب وقت آگیا ہے کہ آپ اسے مزید پھیلنے سے روکیں‘ مسولینی نے پوچھا وہ بھلا کیوں اس پر علامہ اقبال نے کہا کہ جب کوئی بھی شہر حد سے زیادہ وسیع ہوجائے تو وہ پھر اپنی توانائیاں کھو بیٹھتا ہے اٹلی کے ڈکٹیٹر نے کہا کہ یہ بڑی دلچسپ بات ہے اس پر شاعر مشرق نے اٹلی کے ڈکٹیٹر کو کہا کہ یہ ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں ہمارے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ اگر مدینہ کی آبادی خاص حد سے زیادہ ہو جائے تو پھر اس میں مزید اضافہ نہ کیا جائے اور اس کی جگہ کسی دوسرے شہر کو آباد کیا جائے۔ کراچی اور دوسرے بڑے شہروں کا بھی المیہ یہ ہے کہ ان میں مادر پدر آزاد اضافے کے رجحان کو روکا نہیں جارہا۔