خوب سے خوب تر کی تلاش

 کچھ دنوں سے ایک مرتبہ پھر ملک کے سیاسی حلقوں میں یہ بحث دوبارہ چل پڑی ہے کہ اس ملک کے لیے کیا واقعی صدارتی نظام حکومت سودمندہو گا یا موجودہ پارلیمانی نظام جمہوریت بہتر ہے اس معاملے میں ایک سے زیادہ آراءپائی جاتی ہیں اس مسئلے کی تہہ میں جانے سے پہلے ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ کوئی بھی سیاسی نظام حکومت ہر لحاظ سے مکمل قرار نہیں دیا جا سکتا کیوں کہ وہ انسان کا بنایا ہوا نظام ہے اس میں کوئی نہ کوئی سقم ضرور رہ گیا ہوتاہے اور ایک ارتقائی عمل کے ساتھ ساتھ اس میں پائی جانے والی خامیوں کو اصلاحات اور ترمیمات کے ذریعے درست کیا جا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ برطانیہ کے سابق وزیراعظمسر ونسٹن چرچل نے کہا تھا

 

یہ ضروری نہیں کہ پارلیمانی جمہوری نظام ہی تمام مسائل کا حل فراہم کر سکے گا پر سردست اس سے بہتر کوئی اور نظام نظر نہیں آرہا پر کل کلاں اگر کوئی اس سے بہتر نظام دریافت ہو جاتاہے تو اسے اپنانے میں کوئی مضائقہ نہیں پاکستان مختلف اکائیوں پر مشتمل ملک ہے اور اس کے ایک صوبے پنجاب کی آبادی باقی تمام صوبوں سے زیادہ ہے لہذٰا بعض سیاسی عناصر کو اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر اس ملک میں صدارتی نظام حکومت نافذ کر دیا گیا تو اس صورت میں چھوٹی اکائیوں کے باسیوں کے دلوں میں احساس محرومی پیدا ہو جائے گا کہ ان کے صوبے سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص صدارتی ایکشن میں کامیاب نہیں ہو سکتااب اس خدشے کا ازالہ کیسے کیا جا سکتا ہے

 

اس کا جواب تو اس ملک کے آئینی ماہرین ہی دے سکتے ہیں کیا اس قسم کی آئینی شق سے یہ خدشہ رفع نہیں کیا جا سکتا کہ صدر باری باری ہر چار سال بعد ہر صوبے سے منتخب کیا جائے اور جس صوبے کے صدر منتخب کرنے کی باری ہو تو اسکی باری میں صرف اسی صوبے سے تعلق رکھنے والے افراد صدارتی الیکشن میں حصہ لیں اور اس الیکشن میں دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد صدارتی الیکشن میں حصہ نہ لے سکیں ایسا کرنے سے سے باری باری تمام اکائیوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو صدارتی منصب پر بیٹھنے کا برابر کا موقع مل سکتا ہے ۔ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کا جو نظام ملک میں چلایا تھا

 

وہ اس وقت بد نام ہوا جب ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کے اسی ہزار کے قریب منتخب نمائندوں کو صدارتی الیکشن کے لیے الیکٹورل کالج بنا دیا آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر وہ بنیادی جمہوریتوں کے نمائندوں سے صرف مقامی سطح پر لوکل گورنمنٹ کا کام لیتے اور جہاں تک صدارتی الیکشن کا تعلق ہے اسے وہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ملک میں کراتے تو شاید وہ نظام کامیاب ہو جاتا اس ملک میں ایوب خان کا مارشل لاءلگا پھر جنرل ضیاءالحق کا مارشل لاءبھی عوام نے دیکھا اور اس کے بعد جنرل مشرف کا بھی‘ تینوں نظاموں کو صدارتی نظام حکومت نہیں کہا جا سکتا جو نظام ان تین ڈکٹیٹروں نے وضع کیے وہ چوں چوں کا مربہ تھے آدھا تیتر آدھا بٹیر تھے

 

ان کے علاوہ اس ملک کی سیاسی تاریخ پر اگر آپ نظر ڈالیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ہمیشہ اپنے ہاں پارلیمانی نظام حکومت ہی چلتا رہا گو کہ اسے مختلف اشکال میں چلایا گیا اور اب اس پارلیمانی نظام کی افادیت کے بارے میں میں کیا کہا جا سکتا ہے قوم نے دیکھا کہ اس نظام نے ڈلیور نہیں کیا غریب عوام کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئی اس کا فائدہ اگر کسی کو ہوا تو وہ ملک کی اشرافیہ کو ہوا کیونکہ جس طرز پر یہ چلایا جاتا ہے اس میں مڈل کلاس کے کسی فرد کی دال نہیں گل سکتی وہ نہ تو اسمبلی کا ممبر بن سکتا ہے اور نہ اشرافیہ اسے گھاس ڈالتی ہے اس نظام میں صرف جاگیردار اور صنعت کار ہی آگے آتے ہیں ان لوگوں سے غریب آدمی بھلا کیا توقع رکھ سکتا ہے کہ وہ ایسے قوانین نافذ کریں گے کہ جن سے عام آدمی کی زندگی میں بہتری آئے اس میں کوئی مضائقہ نہیں اگر اس مسئلے پر ملک کے منتخب ایوانوں میں یونیورسٹیوں میں اور پبلک سمینارز میں ایک سیر حاصل بحث کا سلسلہ شروع کیا جائے اور میڈیا میں بھی اس پر ایک مفصل بحث و مباحث کا سلسلہ شروع ہو جائے یہ معلوم کرنے کے لئے کہ اس ملک کے عوام کی بہتری کس نظام میںہے پارلیمانی نظام جمہوریت میں یا صدارتی نظام جمہوریت میں اور اگر اس ملک میں صدارتی نظام جمہوریت ہی لانا ہے تو اس کے اندر کون سا ایسا سیفٹی والو لگایا جائے تاکہ کسی ایک کی حق تلفی نہ ہو اور شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پی سکیں ۔