سیا ست کے مختلف رنگ

شنید ہے کہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں اس مہینے کی 20 تاریخ کو آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کررہی ہیں اس ضمن میں انہوں نے کافی ہوم ورک کیا ہے اس کے انعقاد میں زیادہ تر دلچسپی کا مظاہرہ جے یو آئی والے کر رہے ہیں سردست البتہ وثوق سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا جے یو آئی والے گلہ مند ہیں کہ پچھلی دفعہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے انہیں بیچ منجدھار چھوڑ دیا تھا لہٰذا اب اس کی کیا گارنٹی ہے

 

کہ وہ آئندہ تاریخ کو نہیں دہرائیں گی یہی وجہ ہے کہ اب بڑی جماعتوں کے رہنماو¿ں سے جے یو آئی والے جو بھی معاہدہ کریں گے وہ اسے تحریری شکل میں لائیں گے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی اس کی رو گردانی نہ کر سکے اپوزیشن جماعتوں کا ایک بڑا دھڑا اس بات کی حمایت نہیں کرتا کہ فوری طور پر موجودہ حکومت کو چلتا کیا جائے اور الیکشن کے ذریعے کسی دوسری حکومت کا وجود عمل میں لایا جائے کیوں کہ وہ بخوبی جانتا ہے کہ اس وقت ملک جن مالی اور معاشی مسائل کا شکار ہے اس دوران اگر اپوزیشن والوں کو بھی الیکشن میں کامیابی ہو جاتی ہے اور وہ حکومت بناتے ہیں

 

تو وہ بھی ان مسائل کا حل نہیں نکال سکتے ان کی منشا ءیہ ہے کہ موجودہ حکمران آئین کے مطابق اقتدار میں اپنی مدت پوری کریں آدھا وقت تو وہ گزار چکے اب باقی بات ہے مزید دو سالوں کی عام طور پر جو پانچواں سال ہوتا ہے وہ الیکشن کا سال ہوتا ہے اس حساب سے اب حکومت وقت کے پاس بہت تھوڑا وقت رہ گیا ہے اور اگر اس میں وہ ڈلیور کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو آئندہ الیکشن کو جتنا اس کے لئے بہت ہی مشکل ہوگااکثر سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ قطع نظر اس بات کے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو موجودہ حکومت کے خلاف کسی قسم کی بھی تحریک چلانے کے واسطے جے یو آئی کی حمایت کی سخت ضرورت ہوگی پر ان بڑی جماعتوں کے رہنما اپنی دانست میں یہ سمجھتے ہیں کہ عوام میں مقبولیت کے لحاظ سے ان کی سیاسی پارٹیاں ملک کے اندر ایک بڑا ووٹ بینک رکھتی ہیں لہٰذا متحدہ اپوزیشن کی مرکزی قیادت کی صرف وہی حقدارہیں جہاں تک پیپلزپارٹی کا تعلق ہے آ صف زرداری چونکہ کئی عوارض میں مبتلا ہیں

 

لہٰذا ان کے لئے تو اب شاید یہ ممکن نہ ہو کہ وہ پی پی پی میں کوئی متحرک کردار ادا کر سکیں بجز اس کے کہ وہ کوئی مشاورتی کردار ادا کریں لہٰذا قرائن و شواہد یہ بتاتے ہیں کہ شاید اب اگلے الیکشن میں بلاول زرداری مکمل طور اپنی پارٹی کو سنبھال لیں ن لیگ کے اندر البتہ سیاسی صورتحال کافی مختلف ہے نواز شریف اور شہباز شریف جیو اور جینے دو کی پالیسی پر ہمیشہ کاربند رہے ان کے بچوں کے بارے میں البتہ یہ نہیں کہا جا سکتا نواز شریف بھی علیل ہیں اور شہباز شریف کی بھی صحت اب اس طرح کی نہیں رہی کہ جتنی گزشتہ دس برسوں میں تھی ان کی اولاد میں سے نئی قیادت مثلا مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز شریف سیاست میں متحرک کردار ادا کرنے کے لئے اپنے پر تول رہے ہیں

 

لگ یہ رہا ہے کہ شہباز شریف کے بچوں اور نواز شریف کی اولاد میں برداشت کا اتنا مادہ نہیں کہ جتنا ان کے والدین میں تھا لہٰذا یہ بات خارج از مکان نہیں کہ اگر نواز شریف اور شہباز شریف کو سیاسی منظرنامے سے کسی وجہ سے ہٹا دیا جاتاہے یا وہ خود ریٹائرمنٹ لے لیتے ہیں تو ان کے بچوں میں سے کوئی اتنا سیاسی طور پر بالغ نظر نہیں آتا کہ وہ ن لیگ کو ٹکڑے ہونے سے بچا سکیں جماعت اسلامی نے فی الحال اپنے سیاسی کارڈ اپنے سینے کے ساتھ لگا رکھے ہیں اور کسی تجزیہ کار کو یہ جاننے کا موقع فراہم نہیں کیا کہ اس ملک کی سیاست میں اب آئندہ اس کی کیا حکمت عملی ہوگی کیا وہ آئندہ الیکشن ماضی کی طرح دیگر سیاسی و مذہبی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کر کے لڑے گی یا اب کی دفعہ اس کا سولو فلائٹ کرنے کا ارادہ ہے -