ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے

 ماوزے تنگ کو ایک عام چینی اتنا ہی چاہتا ہے جتنا کہ ایک عام پاکستانی قائد اعظم محمد علی جناح کو۔ان دونوں میں جو قدرے مشترک تھی وہ یہ ہے کہ ان دونوں کو اپنے اپنے وطن کے عام آدمی سے حد درجہ پیار تھا اور وہ اس کے بارے میں بڑے مخلص تھے بعض سیاسی مبصرین خصوصا ًوہ کہ جن کا تعلق مغرب سے ہے ماؤزے تنگ پر یہ الزام دھرتے ہیں کہ وہ وژنری لیڈرنہ تھے اور یہ کہ انہوں نے چین کے اندر جبر کا ایک سماں پیدا کیا ہوا تھا بات دراصل سمجھنے کی یہ ہے کہ ہر چیز کو اس کے سیاق و سباق میں دیکھنا چاہئے جب ایک لمبی پر تشدد عوامی تحریک کے نتیجے میں چینیوں نے ماؤ زے تنگ کی قیادت میں وہاں سرخ انقلاب کے ذریعے 1949 میں ایک کمیونسٹ حکومتقائم کی تو چین کی معاشی حالت دگرگوں تھی امریکہ اور اس کی اشرافیہ کمیونسٹ حکومتوں کے بیری تھے وہ ہر کمیونسٹ حکومت کو جنم لیتے ہی مار دیتے تھے وہ بھلا کب چین کی شکل میں کسی کمیونسٹ ملک کو ابھرتا دیکھ سکتے تھے ما و زے تنگ کی دنیا کی تاریخ پر گہری نظر تھی انہیں اندازہ تھاکہ امریکا اور اس کے حواری چین کے اندر سازشوں کاایک جال بچھائیں گے اور اس خدشے کے پیش نظر چین نے کافی ملکوں کیلئے اپنے دروازے بند رکھے پر اس وقت وہ وقت کا تقاضا تھا اس بات سے انکار نہیں کہ ماؤ زے تنگ اور ان کے رفقاء کار سے بعض جگہوں پر زیادتیاں بھی ہوئی ہوں گی یہ بات البتہ طے ہے کہ چین کو ترقی کی پٹری پر چڑھانا بہت ہی مشکل کام تھا جو صرف ڈنڈے کے زور پر ہی کیا جا سکتا تھا جو ماؤ زے تنگ اور ان کے کامریڈوں نے کمال محنت سے کر دکھایا۔ چین کی کمیونسٹ حکومت کی اکہتر سالہ تاریخ میں جو دوسرا فرد ذہن میں آتاہے وہ ڈنگ ژیاوپنگ ہے ان کی دانست میں روشنی کمیونزم کے علاوہ بھی مو جود ہے انہوں نے دھیرے دھیرے چین کے بند کواڑ کھولے اور اگر ان کو سرمایادارانہ نظام معیشت میں عوام کے فائدے کی کوی بات نظر آئی تو وہ انہوں نے بلا تامل اپنائی ان کے بعد پھرہم کو اگر صحیح معنوں میں کوئی عوام دوست لیڈر نظر آتا ہے تو وہ ہے موجودہ صدر شی جن پنگ انہوں نے ایسی حکمت عملی بنائی ہے کہ جس سے اگر ایک طرف چین معاشی طور پر خوشحال ہواتو دوسری طرف چین کے دشمنوں کی پسپائی ہوی نیپال بھارت کی محتاجی سے نکل جائے گا اسے اب براستہ قراقرم گوادر سے ملا دیا جاے گا کچھ اسی قسم کی سہولت افغانستان کو بھی حاصل ہو جائے گی اس منصوبے پر بھارت اور امریکا دونوں کو پسو پڑ چکے ہیں۔ 1949 سے اب تک جو بھی قیادت چین میں برسرِاقتدار رہی ہے اس میں یہ خاصیت رہی ہے کہ وہ سویٹ یونین کی لیڈرشپ کی طرح کارل مارکس کے فلسفہ معاشیات کی لکیر کی فقیر نہ تھی اس نے اگر یہ محسوس کیا کہ فلاں فلاں امور میں سرمایادارانہ نظام سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے تو اس نے ضرور اٹھایا کم و بیش اسی قسم کی روش یوگوسلاویہ کے عظیم لیڈر مارشل ٹیٹو نے بھی اپنے دور اقتدار میں اپنائی تھی۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے‘ 1985 میں یعنی آج سے تقریبا 35 برس پہلے جب ہم ایک سرکاری کام کے سلسلے میں چین گئے تو وہاں جن چیزوں نے ہمیں متاثر کیا ان میں چند ایک باتیں درج ذیل کی سطور میں ہم اپنے پڑھنے والوں کے ساتھ شئیر کر دیتے ہیں اول تو یہ کہ چین میں بڑے بوڑھوں کی من حیث القوم جتنی عزت کی جاتی وہ شاذ ہی کسی اور ملک میں کی جاتی ہو ہر گھر میں جو سب سے عمررسیدہ سفید ریش ہوتا ہے گھرکے اہم معاملات میں اسے ویٹو پاور کا حق حاصل ہوتا ہے دوسری بات یہ ہے کہ چینی ہنستے کم ہیں اور مسکراتے زیادہ ہیں تیسری بات جو ہم نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ وہ حد درجہ برداشت کا مادہ رکھتے ہیں ان دنوں ہمیں یہ اندازہ ہوا کہ چین کی حکومت نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ سر دست پوری قوم تعلیم کے حصول خصوصا سائنسی تعلیم میں ترقی کرنے کیلئے اپنی تمام تر توجہ اس کی طرف مبذول کرے گی اور خامخواہ کسی بھی ملک سے کسی قسم کا سیاسی پنگا نہ لے گی تا کہ اس کی انرجی ضائع نہ ہو چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ چین ایک لمبے عرصے تک سر جھکا کر کام کرتا رہا امریکا نے لاکھ کوشش کی کہ اسے تائیوان کے قضیے پر مشتعل کیا جائے پر اس نے کمال حوصلے کا مظاہرہ کیا اور آج وہ اس پوزیشن میں آ گیا ھے کہ کسی بھی ملک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہے چین کے باشندے عظیم چینی فلسفی کنفیوشس کی تعلیمات سے متاثرہیں اس کے فرمودات چینوں کے کردار میں رچ بس چکے ہیں‘ یہ فلاسفر آج سے دو ہزار پانچ سو برس پہلے چین میں گزرا ہے اس کی تعلیمات کا چین کے باسیوں کی زندگی پر اب بھی اتنا گہرا اثر ہے کہ کمیونزم بھی کنفیوشس کی تعلیمات کو چینیوں کے اذہان سے باہر نہیں نکال سکا۔