انتظامی کاموں میں سیاسی مداخلت

یہ بات قابل افسوس ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا قومی میڈیا میں روزانہ اس نوع کی خبریں تواتر سے اب بھی چھپتی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ آج بھی سرکاری ملازمین کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر میں سیاسی حکمران حد درجہ مداخلت کر رہے ہیں ایک زمانہ تھا اور یہ کوئی زیادہ عرصے کی بات نہیں کہ جب ہر علاقے کے وڈیرے چودھری خان خوانین ایم پی اے ایم این اے کی یہ کوشش ہوا کرتی تھی کہ اس کے علاقے کا پٹواری تحصیلدار اور تھانے دار اس کی مرضی کا ہو اس سے آگے بات نہیں بڑھتی تھی پھر ہم نے ایک دور ایسا بھی دیکھا کہ سیاسی لوگ اپنے علاقے کے ایس پی پولیس اور ڈپٹی کمشنر کی تعیناتی میں بھی دلچسپی لینے لگے

 

اور یہ چلن وقت کے ساتھ زور پکڑتا گیا اور آج بھی جاری و ساری ھے یہ لمبی تمہید ہم نے اس لئے باندھی کہ قومی میڈیا میں ایک عرصے سے پنجاب کے آئی جی پولیس اور سی سی پی او لاہور کے درمیان کشیدگی کی خبریں تواتر سے چھپ رہی تھیں انجام کار اگلے روز آئی جی پی پر نزلہ گرا اور ان کو فارغ کر دیا گیا واقفان حال کا کہنا ہے کہ وزیر اعلی پنجاب نے عمر شیخ نامی پولیس افسر کو آئی جی پولیس پنجاب کے مشورے کے بغیر براہ راست سی سی پی او لاہور تعینات کیااس کے بعد عمر شیخ صاحب نے ایک ایسا بیان دیا کہ جو آئی جی پنجاب دست گیر صاحب کی دانست میں مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتا ہے پرانے سول اور پولیس افسروں کی اکثریت کی یہ رائے ہے کہ پولیس افسر ہو یا سول سرونٹ ان کی پوسٹنگ ٹرانسفر کا کلی اختیار چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کے پاس ہونا چاہئے جو روز اول سے ہی ان کے کیریئر پلاننگ کا ایک جامع پروگرام بنائیں ان کی تعیناتی نچلے رینک سے لے کر اوپر تک صرف اور صرف ان کی ماضی کی کارکردگی ان کی عوامی شہرت ان کی دیانتداری ان کی محنت وغیرہ کو مدنظر رکھ کر کی جائے

 

ان کی کی پوسٹنگ میں سیاسی مداخلت تو بالکل نہیں ہونی چاہئے افسوس کے ایک عرصے سے ان باریکیوں اوران تقاضوں کا خیال بالکل نہیں رکھا جا رہا اور جس کا نتیجہ عوام کے سامنے ہے موجودہ نظام میں تو چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کے مناصب کو محض پوسٹ بکس آفس بنا دیا گیا ہے کسی بھی ماتحت افسر کی پوسٹنگ ٹرانسفر میں ان کا کوئی کردار اگر ہے بھی تو آٹے میں نمک کے برابر ہے ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور ہیں پوسٹنگ اور ٹرانسفر کے بارے میں بھی فائلوں میں یوں تو رول ریگولیشن موجود ہے پر وہ صرف کاغذات کی حد تک ہی ہیں اس پر عملدرآمد شاذ ہوتا ہے یہ جو آئے دن آپ مختلف صوبوں میں آئی جی پولیس اور وزیراعلی کے درمیان اختلافات کی خبریں خبریں پڑھتے ہیں اور سندھ اور پنجاب میں خصوصا جس تیزی سے پولیس کے آئی جیزکو تبدیل کیا جا رہا ہے

 

اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آج بھی بعض ایسے سینئر پولیس آفیسر ز موجود ہیں کہ جو پولیس کی ورکنگ میں سیاسی مداخلت کو صوبے کے امن کے لیے زہر قاتل سمجھتے ہیں پر ان کی سنی ان سنی کر دی جاتی ہے ان کی شنوائی نہیں ہوتی اور ان میں سے اگر کوئی وزیراعلی کے حکم پر سو فیصد عمل نہیں کرتا تو وہ وزیراعلی کی آنکھوں میں کھٹکنے لگتاہے اور اسے اپنے وقت سے پہلے ہی ٹرانسفر کر دیا جاتا ہے سیاسی مصلحتوں اور سفارشوں پر ضلعی سطح پر پولیس افسروں اور ڈپٹی کمشنروں کی تعیناتی کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ سفارش سے لگنے والے افسران پھر وزیراعلی سے براہ راست تعلق رکھنا شروع کر دیتے ہیں اور وہ انتظامی ڈسپلن کو بالکل خاطر میں نہیں لاتے اور اکثر امور میں اپنے کمشنر یا ڈی آئی جی یا آئی جی پولیس کو بائی پاس کرکے وزیراعلی سے ڈائریکٹ اپنا کنکشن بنا لیتے ہیں اور چین آف کمانڈ کو توڑ کر انتظامی قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑا دیتے ہیںآج کل عوام کافی حد تک سیاسی شعور رکھتے ہیں

 

اگر کسی افسر کو بطور ڈپٹی کمشنر یا ایس پی پولیس اور یا کسی اور انتظامی عہدے پر کسی ضلع میں تعینات کیا جائے گا اور اس کی تقرری کسی سیاسی سفارش کے نتیجے میں نہیں ہوئی ہوگی تو اس ضلع کے تمام مکتبہ ہائے فکر کے لوگ اس پر اندھا اعتماد کریں گے اور انتظامی امور میں اس کے احکامات پر کان دھریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ تعاون بھی کریں گے اس کے برعکس اگر اگر انہیں یہ پتہ چل جائے کہ جس شخص کی ان مناصب پر تقرری ہوئی ہے وہ کسی خاص سیاسی جماعت کا منظور نظر ہے تو وہ پھر کسی معاملے میں بھی مقامی انتظامیہ سے تعاون نہیں کریں گے اس لئے لیے یہ ضروری ہے بلکہ حکومت وقت کے اپنے مفاد میں بھی ہے کہ جو سیاسی جماعت بھی برسر اقتدار ہو وہ کم از کم فیلڈ پوسٹنگز میں نہایت احتیاط برتے اور صرف ان افراد کو اہم انتظامی مناصب پر تعینات کرے کہ جن کے دامن پر یہ داغ نہ لگا ہو کہ وہ کسی خاص سیاسی پارٹی کی طرف مائل ہیں۔ کیونکہ حکومتی مشینری کا مقصد انتظامی امور کو صحیح طریقے سے چلانا ہے اگر یہ مقصد حاصل نہ ہو تو لازمی طور پر اس سے حکومتی کارکردگی اور عوام کو خدمات کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔