قدرت اپنے وضع کردہ نظام کے تحت دنیا کی آبادی کو کنٹرول کیا کرتی ہے اس کا اپنا ایک نظام ہے جو انسان کی سمجھ سے باہرہے کبھی زلزلوں کے ذریعہ تو کبھی وباوں اور سونامیوں کے روپ میں ‘ابتداءآفرینش سے لے کر آج تک کروڑوں ہلاکتیں ہوئی ہیں آج سے سو سال پہلے جب کہ اس دنیا کی آبادی آج کی آبادی کا نصف تھی تو کیا یورپ میں فلو کی وبا سے کروڑوں لوگ لقمہ اجل نہیں ہوئے تھے ؟ کورونا نے سرکاری اور نجی دفاتر میں ورکنگ کلچر کو بدلا کر رکھ دیا ہے اگلے روز ہمیں ایک نجی کمرشل کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر نے بتایا کہ جب سے ان کی کمپنی کے ملازمین نے گھر سے آن لائن کام کرنا شروع کیا ہے‘ ان کی کمپنی کے کئی متفرق اخراجات کم ہو گئے ہیں مثلا دفتر کے بجلی کے بل وغیرہ وغیرہ ‘ گھر میں بیٹھ کر ملازمین اپنے کام کو زیادہ سے زیادہ وقت دے سکتے ہیں دفتر آنے جانے میں جو ٹرانسپورٹ پر خرچہ ہوتا تھا وہ بچ گیا ہے اور آنے جانے میں ملازمین کا جو ٹائم لگتا تھا وہ اب بچ رہاہے اس لئے کئی دفاتر کے مالکان اگر کورونا کو ایک طرف باعث زحمت سمجھتے ہیں۔ تو دوسری طرف اسے مالی طور پر باعث رحمت بھی تصور کر رہے ہیں بہرحال دفاتر کا ورکنگ کلچر تبدیل ہو رہا ہے اس طولانی جملہ معترضہ کے بعد اب ذرا ذکر کرتے ہیں سابقہ فاٹا اور موجودہ ضم شدہ اضلاع کا۔ شمالی وزیرستان میں گزشتہ دنوں ایک لمبے وقت تک سرکاری سڑک کی ہڑتالیوں کے ہاتھوں زبردستی بندش کو کھلوانے میں مقامی انتظامیہ کی ناکامی اس بات کا ثبوت تھی کہ پرانے قوانین کو یکسر ختم کرنے سے وہاں پر مقامی انتظامیہ کی رٹ بری طرح متاثر ہوئی ہے ‘ یاد رہے کہ جب فاٹا کا بندوبستی علاقے کے ساتھ انضمام کیا جا رہا تھا تو کئی لوگوں نے ارباب اقتدار کو مشورہ دیا تھا کہ فاٹا سے اجتماعی قبائلی جغرافیائی ذمہ داری کے تصور کویکسر ختم نہ کیا جائے کہ اگر اس کا مکمل خاتمہ کے بعد خدانخواستہ فاٹا کے اندر کوئی امن عامہ کا مسئلہ اگر پیداہوا تو یہ پولیس کے بس کی بات نہ ہو گی کہ اسے کنٹرول کر سکے۔، گزشتہ روزجب بعض قبائلی مظاہرین نے سرکاری سڑک کو بلاک کر کے شمالی وزیرستان کو بجلی کی سپلائی معطل کر دی جبکہ فاٹا کے بندوبستی علاقے کے ساتھ انضمام سے پیشتر جو انتظامی نظام فاٹا میں نافذ تھا اس میں فاٹا کے اندر سرکاری سڑک کی حرمت sanctity کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی اور فاٹا کے ہر باسی کو بخوبی علم تھا کہ اگر ان میں سے کسی نے بھی غلطی سے سرکاری سڑک کو بلاک کر دیا تو اجتماعی قبائلی ذمہ داری کے تصور کے تحت اس جرم کے مرتکب کو اس کے سالم قبیلے کے بشمول بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑے گا کہ جس کے علاقے میں روڈ بلاک کرنے کی واردات ہوئی ہو گی اس قسم کی حرکت کرنے سے ماضی میں فاٹا کے رہنے والے اجتناب کیا کرتے تھے جس دن سے فاٹا کا انضمام بندوبستی علاقے کے ساتھ ہوا ہے اس دن سے اب اس قسم کا اجتماعی ذمہ داری کا احساس یا خوف فاٹا کے باسیوں کے دلوں سے ختم ہو چکا ہے اب مسئلہ یہ ہے کہ جہاں تک پولیس کا تعلق ہے اسے مشکل پیش آتی ہے کہ فاٹا کے منفرد جغرافیائی محل وقوع کے اندر امن عامہ کو برقرار رکھ سکے‘ فاٹا کا انضمام بندوبستی علاقوں کے ساتھ ایک اچھا فیصلہ ہے تاہم امن عامہ کے حوالے سے وہاں موثر اقدامات کرنا ابھی باقی ہے ۔