جب ہم جیسے لکھاری سیاستدانوں کو صدق دل سے یہ مشورہ دیا کرتے تھے کہ وہ عوام سے براے راست رابطے کیلئے جلسہ گاہوں میں ان کو جمع کرنے کے بجاے جدید ترین انفارمیشن ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا کر الیکٹرانک میڈیا کو بروئے کار لایا کریں تو وہ سنی کو ان سنی کر دیتے تھے پر آج کل کروناجیسی وباو¿ں اور ایک سے زیادہ جلسوں کو بیک وقت خطاب کرنے اور اس کےلئے وقت بچانے کیلئے ان کو الیکٹرونک میڈیا کا انجام کار دامن تھامنا پڑ ہی گیا ہے ضرورت ایجاد کی ماںہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ اب وہ مستقل طور اس عادت کو اپنا لیں عوام سے بات چیت کرنے یا ان کو خطاب کرنے کےلئے ٹیلی ویژن چینلز سے بہتر کوئی اور دوسرا میڈیم اس وقت موجود نہیں مارکیٹ میں درجنوں کے قریب نجی سیکٹر میں ٹیلی ویژن چینلز موجود ہیں جو ان کی خدمت کےلئے ہر وقت تیار بیٹھے ہیں اس رویہ سے ایک تو یہ ہوگا کہ حکومت کوان کی پبلک میٹنگز میں امن و امان قائم رکھنے اور ان میں تقاریر کرنے والے سیاسی لیڈروں کی سیکورٹی پر جو لاکھوں روپے ہے خرچ کرنا پڑتے ہیں وہ بچ جایا کریں گے اور سیاستدان نہایت ہی محفوظ طریقے سے عوام الناس سے مخاطب ہو سکیں گے اور ٹیلی ویژن ایسا میڈیم ہے ہے کہ اس کو استعمال کر کے وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک رسائی بھی حاصل کر سکتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ سیاستدانوں کو جلسہ عام منعقد کرنے پر بھاری رقم خرچ کرنا پڑتی ہے اس سے کم خرچے پر وہ ٹیلی ویڑن چینلز کے ذریعے ملک کے طول و عرض میں اپنی آواز زیادہ موثر طریقے سے عوام تک پہنچا سکتے ہیں۔ آپ نے یہ بات ضرور نوٹ کی ہوگی کہ ایک عرصہ دراز سے مختلف ٹیلی ویثرن چینلز والے روزانہ جو ٹاک شوز کرتے ہیں ان میں جو شرکاءآتے ہیں وہ ایشوز پر بات بہت کم بات کرتے ہیں اور اور ایک دوسرے کی کردار کشی پہ زیادہ وقت لگاتے ہیں آئیں بائیں شائیں مارنے سے کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں نکلتا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ٹیلی ویڑن چینلز والے ہر ٹاک شو کے لیے ان ایشوز کی ایک فہرست پہلے سے بنا لیا کریں کہ جن پر فوری عمل درآمد کر کے عوام کو ریلیف پہنچانا سخت ضروری ہے اور پھر ان ایشوز پر تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کو جمع کرکے ایک ٹیلی ویڑن سیمینار یا ورکشاپ کی شکل میں ان کو جمع کر کے ان سے فردا ًفرداً آرا حاصل کی جائیں تاکہ عوام کو پتہ چلے کہ ان کے یہ نام نہاد لیڈر کتنے پانی میں ہیں اور ملک کو آجکل جو مسائل درپیش ہیں بھلے وہ معاشی ہیں سیاسی ہیں یا انتظامی‘ ان کے حل کےلئے ان کے پاس کونسی گیڈر سنگھی مو جود ہے۔اس ملک کی سیاست میں جو تلخی تیزی سے پھیل رہی اس کا خاتمہ صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر ان لوگوں کو صرف ایشوز پر بحث و مباحث کی اجازت ہو اور ایک دوسرے کے خلاف دشنام طرازی کی اجازت بالکل نہیں ہونی چاہئے ‘ یہ قوم ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے اور عام لوگوں کو درپیش معاشی سیاسی اور انتظامی مسائل کے حل نہ ہونے کی وجہ سے پریشان اس لئے ہے کہ اس کے ذہن میں ابھرتے ہوئے سوالات کا اسے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے رہا اور نہ ہی ابلاغ عامہ کا کوئی ادارہ ان کے مسائل کو ایشوز کی شکل میں ارباب اقتدار اور حزب اختلاف کے سامنے پیش کر رہا ہے یہ کام محنت طلب ہے ‘ جنرل قسم کی باتیں کرنا بڑا آسان ہوتا ہے پر ایشوز پر بحث و مباحثہ ہوم ورک مانگتا ہے جس کےلئے سوال کرنے والے کو کافی مغز ماری کرنی پڑتی ہے اور مغز ماری کا کام ہم میں سے اکثر لوگوں سے نہیں ہوتا۔