دن بدن حکومت اور اپوزیشن میں اعصابی جنگ زور پکڑ رہی ہے ان دونوں میں جس فریق کے بھی اعصاب مضبوط ثابت ہوئے اس نے یہ جنگ جیت لینی ہے اگر حکومت دو محاذوں میں میدان مار لیتی ہے تو سمجھ لیجئے گا کہ اس نے یہ سیاسی معرکہ جیت لیا ہے دو چیزوں پر اگر تو اس نے کماحقہ عمل درآمد کر لیا تو اس صورت میں پھر اپوزیشن کے پاس کوئی ایسا تاش کا پتا باقی نہیں رہے گا کہ جس کے بل بوتے پر وہ عوامی جذبات کو کسی طور بھی حکومت کے خلاف بھڑکا سکے حکومت کو اس صورت میں اقتدار میں اپنا باقی ماندہ وقت آرام اور سکون سے گزارنے کا موقع بھی مل جائے گا کہ وہ اپنے سیاسی منشور کوعملی جامہ پہنا سکے وہ دو چیزیں کیا ہیں؟ مبینہ طور پر میگا کرپشن کرنے والے افراد سے پیسوں کی ریکوری اور اشیائے خوردنی میں کمر توڑ مہنگائی پر کنٹرول تادم تحریر ان دونوں محاذوں پر کوئی خاص پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی انگلستان کی حکومت کے ظاہر پر نہیں جانا چاہیے وہ دل ہی دل میں خوش ہوتی ہے کہ غیر ممالک سے لوگ جتنا دھن انگلستان لا کر وہاں انوسٹ کریں اتنا ہی اس کیلئے معاشی طور پر فائدہ مند ہے۔لہٰذا مشکل دکھائی دیتا ہے کہ وہ اس ضمن میں کسی چابکدستی کا مظاہرہ کرے گی اور جن پاکستانیوں پر الزام ہے کہ وہ اس ملک سے مختلف حیلوں بہانوں سے پیسہ انگلستان لے گئے ہیں انہیںوہ حکومت پاکستان کے حوالے آسانی سے کر دے گی جہاں تک میگا کرپشن مقدمات کے فوری طور فیصلوں کا تعلق ہے اس ضمن میں وقت کم اور مقابلہ سخت والی بات ہے ان کیسز کے فیصلے جلد تب ہی ممکن ہو سکتے ہیں کہ جب عدالتیں روزانہ کی بنیاد پر کام کریں بلکہ چھٹیوں کے دن بھی کام کریں اور اس ضمن میں متعلقہ حکومتی اداروں میںہم سنجیدگی کا مظاہرہ بالکل نہیں دیکھ رہے۔ حکومت کی جانب سے یہ کہنا کہ بیوروکریسی ان دو کاموں کی تکمیل میں رکاوٹ ہے بھی ایک لحاظ سے حکومت کی طرف سے اعتراف شکست کے مترادف ہے۔ آج کل کی بیوروکریسی کو تو ہینڈل کرنا کسی بھی برسر اقتدار حکومت کےلئے کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ٹھیک ہے ‘ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار میں آنے کے وقت سے پہلے وہ کافی با ا ختیار بھی تھی اور طاقتور بھی‘ بھٹو صاحب نے انتظامی معاملات میں نام نہاد اصلاحات کرکے بیورو کریسی کے ہاتھ پیر کاٹ کر اسے حکومت وقت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا چنانچہ ان کے وقت سے لے کر اب تک موم کی ناک کی طرح اسے جس طرف بھی حکومت وقت موڑنا چاہتی ہے موڑ تی آئی ہے لہٰذا کمزور بیوروکریسی کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ حکومت وقت کے کاموں میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے نا قابل فہم بات نظر آتی ہے اسے کوئی آسانی سے مانے گا نہیں۔یہ تو خیر بات ہوئی اس اعصابی جنگ کی کہ جو ملک کے اندر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہو رہی ہے اب ذرا بات کرلیتے ہیں اس اعصابی جنگ کی کہ جو چین اور امریکا کے درمیان بین الاقوامی سطح پر بڑی شدت سے لڑی جا رہی ہے اور جو اب خطرناک شکل اختیار کر رہی ہے۔ امریکا نے خبط عظمت کا شکار ہو کر کسی دور میں سویت یونین کا تیا پانچا کرنے کا جو طریقہ آزمایا تھا آج اسی طرز پر وہ چین کو نیچا دکھانے کے در پے ہے ہمارا اشارہ حال ہی میں ہونے والے بھارت اور امریکا کے درمیان اس معاہدہ کی طرف ہے کہ جس میں ان دونوں نے چین کے ساتھ مل کر لڑنے کا اعلان کیا ہے اس معاہدہ کے تحت بھارت کو امریکا جدید فوجی ہارڈویر اور ٹیکنالوجیز فراہم کرے گا یہ بات تو طے ہے کہ ماضی میں اسی قسم کے معاہدوں سے جب بھی بھارت نے کبھی سپر پاورز سے اسلحہ بٹورا وہ اس نے پھر وطن عزیز کے خلاف ہی استعمال کیا ۔اس نئے معاہدے پر حکومت وقت کی پریشانی بجا ہے کیونکہ اس خطے میں امریکا چین کے درمیان کسی بھی عسکری جنگ سے وطن عزیز کو معاشی اور عسکری دونوں لحاظ سے ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ وقت نے انجام کار اس بات کو صحیح ثابت کر دیا ہے کہ امریکا کی اس خطے میں ترجیحات بدل چکی ہیں اب وہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دے رہا ہے ۔