انوکھے کام

 یہ یورپ والے بھی عجیب سوچ کے مالک ہیں ان کا ہر کام نرالا ہوتا ہے خودکشی کو اب کئی یورپی ممالک حتیٰ کے آسٹریلیا ‘نیوزی لینڈ اور امریکہ کی بعض ریاستوں نے بھی قانونی قرار دے دیا ہے ‘سوئٹزرلینڈ میں تو ڈگنٹاس Dignitas کے نام سے ایک ہسپتال کام کر رہا ہے کہ جہاں ان لوگوں کی جان لے لی جاتی ہے کہ جو رضاکارانہ طور پر مرنا چاہتے ہیں اور اپنے پورے ہوش و حواس اور خوشی بہ رضا سے ہسپتال والوں کو لکھ دیتے ہیں کہ وہ اب مزید اس دنیا میں زندہ نہیں رہنا چاہتے اس قسم کی موت کے جو خواہش مند ہوتے ہیں ان میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں کہ جو کسی ایسی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہو تے ہیں کہ جن کو ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے کر جواب دے دیا ہوتا ہے کہ ان کے بچنے کا اب کوہی امکان نہیں یا پھر رضاکارانہ طور پر موت کے طلبگاروں میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں کہ جو اسی پچاسی نوے یا اس سے بھی زیادہ عمررسیدہ ہوتے ہیں اور چونکہ ان کے شریک حیات دوست وغیرہ داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہوتے ہیں لہٰذا وہ اپنے آپ کو دنیا میں تنہا محسوس کرتے ہیں اور یہ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ اب اس جہاں میں ان کا مزید رہنا عبس ہے ڈگنٹاس ہسپتال والے کاغذی کاروائی مکمل کرنے کے بعد ان کو ایک لذیز نشہ آور شربت پلا دیتے ہیں اور اس کے بعد انہیں ایک انجکشن لگا دیتے ہیں جس سے ان کی رحلت ہو جاتی ہے پر اس عمل سے پہلے وہ اس شخص سے ایڈوانس فیس وصول کر لیتے ہیں تاکہ اس سے اس کے کفن دفن کا بندوبست کیا جا سکے اب تک ہزاروں لوگوں نے جن کا تعلق یورپ سے ہے سوئٹزرلینڈ میں اس ہسپتال سے رابطہ کر چکے ہیںسوئٹزرلینڈ کے دیکھا دیکھی اب کئی اور ممالک نے بھی رضا کارانہ طور پر موت مانگنے والے لوگوں کو قانونی طور پر یہ اجازت دے دی ہے اور اب ان کے خلاف یا ان کی جان لینے والوں کے خلاف ان ممالک کے کسی بھی تھانے میں پرچہ نہیں کٹتا ‘ دنیا میں بوڑھے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے جو اب 9 فیصد ہو گئی ہے 2015 ءمیں یہ 6 فیصد تھی اسی طرح انسان کی اوسط عمر میں بھی اضافہ ہوا ہے جو اب 72 سال تک پہنچ چکی ہے یورپ کے کئی ممالک میں تو بہتر طبی سہولیات اور معاشی خوشحالی کی وجہ سے اوسط عمر 80 تک جا پہنچی ہے مغرب کے بارے میں ایک عام تاثر ہمارے جیسے ممالک میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے کہ وہاں بڑے بوڑھوں کا ان کے بال بچے زیادہ خیال نہیں رکھتے اس لئے وہاں کی سوشل ویلفیئر سٹیٹس نے سرکاری سطح پر ان کے لئے اولڈ ہومز کا بندوبست کر رکھا ہے جہاں پر وہ آرام اور سکون کے ساتھ زندگی کے آخری ایام گزارتے ہیں ہمارے معاشرے میں بھی کافی عرصے سے اس قسم کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں اور ان میں روزانہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ جن میں ناخلف اولاد اپنے والدین کو کبیر سنی کے ایام میں نظر انداز کر رہے ہیں ۔