کورونا وائرس عود کر واپس آ گیا ہے بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ وہ گیاہی کب تھا اس نے تو کچھ عرصے کیلے سر چھپایا تھا اب وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سب آئندہ دو تین مہینوں میں خصوصاً جب کہ جاڑہ جوبن پر ہوگا غیر معمولی احتیاط کا مظاہرہ کریں کیونکہ اس موسم میں نزلہ زکام اور نمونیا کی بیماریاں ویسے بھی عام ہوتی ہیں اپوزیشن کو بھی چاہئے کہ وہ ہوش کے ناخن لے اور خوامخواہ لوگوں کے جمگھٹے بنا کر ان کی زندگیوں سے نہ کھیلے۔ کوئی آسمان نہیں گرے گا اگر سر دست وہ اس وقت تک اپنی سیاسی سرگرمیاں کچھ عرصے کیلے ملتوی کر دے اور اگر وہ خوامخوا اخبارات کی سرخیوں میں رہنا چاہتی ہے تو وہ الیکٹرانک میڈیا کی سہولت سے فائدہ اٹھائے تا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اپوزیشن لیڈر یہ نہ بھولیں کہ لوگ ہوں گے تو ان کی سیاست چمکے گی اگر خدا نخواستہ لوگ ہی نہ رہے تو وہ پھر کس کے سر پر سیاست کریں گے کورونا کی ویکسین کے بارے میں باتیں تو بہت کی جا رہی ہیں پر جتنے منہ اتنی باتیں اس ویکسین کی دریافت کے عمل میں محنت تو بہت کی جا رہی ہے پر جب تک اس کا کوئی ایسا تریاق دریافت نہیں ہو جاتا کہ جس پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اپنی مہر تصدیق ثبت نہ کر دے کسی بھی ویکسین کا استعمال یا اس کی مارکیٹنگ خطرے سے خالی نہ ہو گی 2020 کا سال اس لحاظ سے اس دنیا کیلئے برا رہا کہ گزشتہ فروری سے لے کر تا دم تحریر کورونا جیسی مہلک وبا اس کے ساتھ ایسی چمٹی ہے کہ جیسے لسوڑے کی لیس ‘ جس سے دنیا ابھی تک اپنا دامن نہیں چھڑا سکی ۔ایک طرف اگر کورونا ہمارا دامن نہیں چھوڑ رہا تو دوسری طرف ملک کی سیاست میں ٹکراو¿ خطرناک صورت اختیار کر رہا ہے۔ لگتا ہے کہ جیسے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے رہنما ایک دوسرے کے خلاف زبان استعمال کر رہے ہیں وہ اس ملک میں پارلیمانی جمہوریت کیلئے کوئی اچھا شگون نہیں ہے یہ سوچ کا مقام ہے کہ اگر اتنے لمبے عرصے کے بعد بھی پے در پے ٹھوکریں کھانے کے بعد بھی ہمارے سیاستدانوں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا تو اب وہ کیا خاک سبق سیکھیں گے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا درج ذیل ادوار میں سیاستدان اس ملک میں بر سر اقتدار نہیں رہے؟1948 سے لے کر 1958 تک آخر اس ملک میں کون برسراقتدار تھا اس کے بعد 1972 سے لے کر1977 تک اس ملک کی باگ دوڑ کس کے ہاتھ میں تھی اس کے بعد 1990 سے لے 1999 تک اس ملک میں کون حکومت کرتا تھا پھر ذرا یہ بھی سوچئے کا مقام ہے کہ 2008 سے لے کر آج تک کیا سیاستدان اس ملک پر حکمرانی نہیں کر رہے اگر آپ ان سب ادوار کو جمع کریں تو ملا جلا کر یہ عرصہ تقریبا ً36 برسوں پر محیط ہے کئی سیاسی مبصرین کے مطابق 1970کے بعد پانچ چھ برس تک ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو بلا شرکت غیرے اقتدار ملا تھا اور اسمبلی میں ان کو عدوی اکثر یت بھی حاصل تھی وہ اگر چاہتے تو پارلیمانی نظام حکومت کی صحیح طور پر آبیاری کر سکتے تھے ان کے بعد بھی ان کی اور دیگر سیاسی پارٹیوں کی حکومتیں مرکز اور صوبوں میں لمبے لمبے عرصے تک قائم رہیں پر افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ انہوں نے بھی پارلیمانی جمہوری روایات کا شاذ ہی خیال رکھا جب وہ اقتدار میں تھے تو ان کو پارلیمانی جمہوریت کے تقاضوںکا خیال تک نہ تھا پر افسوس کہ جب وہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو پارلیمانی جمہوریت کی پامالی کا رونا رونے لگتے ہیں۔