جب 1970 کی دہائی میں بھٹو نے ایف ایس ایف بنائی تو اس پر کئی سوالیہ نشانات اٹھاے گئے تھے جب عمران خان نے ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کیا تو اسے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اب ان کی دیکھا دیکھی مریم صفدر نے شیر جوان کے نام سے جو فورس تخلیق کی ہے اسے بھی تنقید کا سامنا ہے وہ سیاسی رہنما جو ایک دوسرے کو آئین کی پاسداری کرنے کا دن رات سبق دیتے ہیں وہ کیوں یہ بات بہ آسانی بھول جاتے ہیں کہ اس ملک کا آئین بھلا ان کو کب اجازت دیتا ہے کہ وہ اس قسم کی فورسز بنائیں ؟۔اگر اس رحجان کو سختی سے روکا نہ گیا تو یہ ملک طواف الملوکی اور انتشار کا شکارہو سکتا ہے چونکہ حکومت نے ازخود یہ سلسلہ شروع کیا ہے اسے خود ہی پہل کر کے اسے ختم بھی کرنا ہوگا ورنہ خدشہ یہ ہے کہ ہر سیاسی پارٹی اسی قسم کی نجی فورس بناے گی اور اس ملک کا سیاسی میدان ایک اکھاڑہ بن جائےگا۔اکثر لوگوں کی سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ آخر اس کی ضرورت ہی کیا تھی جو حکومت نے ٹائگر فورس بنا کر ایک ایسی روایت کھڑی کر دی کہ جس کی تقلید کرنے کا دیگر جماعتوں کو موقع مل گیا فارسی زبان کا ایک مقولہ ہے کہ خود کردہ را علاجے نیست ۔ اس ملک کا نظم و نسق چلانے کیلئے مختلف آئینی ادارے موجودہیں جیسا کہ انتظامیہ عدلیہ او ر پولیس ‘امن و امان کے قیام کو یقینی بنانے کیلے پولیس پیرا ملٹری فورسز موجود ہیں یہ ادارے غیر سیاسی ہیں اور آئین پاکستان کے مطابق خوش اسلوبی سے اپنا کام سر انجام دے رہے ہیں ان کے سر پر باہر سے لاکر کسی کو بٹھانے سے انتشار پھیلانے کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیںہوگا جس کسی نے بھی حکومتی پارٹی کو یہ مشورہ دیا وہ اس کا دوست نہیں تھا ۔ہماری دانست میں بھٹو کی اس غلطی کو دہرا کر ان سیاسی پارٹیوں نے کوئی دانشمندی کا ثبوت نہیں دیاہے کہ جنہوں نے اس قسم کی تنظیمیں بنائی ہیں ایک میان میں دو تلواریں رکھنا کہاں کی دانشمندی ٹھہری؟کیا کسی نے ان فورسز بنانے والوں کو انہیں ایف ایس ایف کا انجام نہیں بتایا ؟۔کیا ملک کا سیاسی درجہ حرارت واقعی دن بہ دن بڑھ رہا ہے یا میڈیا اسے حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے ؟دھواں اس جگہ سے ہی اٹھتا ہے کہ جہاں آگ لگی ہو ‘ اندرونی طور پرہماری معیشت سنبھل نہیں رہی مافیاز کا زور ٹوٹتا نظر نہیں آ رہا غریب آ دمی سر دست تو یہ سب کچھ اس آ س پر برداشت کر رہا کہ مبادہ اس کا کل اچھاہو جائے پر صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے پیمانہ جب لبریز ہو جائے تو پھر کچھ بھی ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کو اپنی اپنی جگہ سے چند قدم پیچھے ہٹ کر سب سے پہلے سیاسی تندور پر پانی کے چھینٹے ڈال کر اسے ٹھنڈا کرناہوگا ان کے لیڈروں کو اپنی اپنی زبان کو لگام دینی ہوگی حکومت کے لیڈروں کا یہ موقف ہے کہ وہ میگا کرپشن میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے بے شک وہ انہیں ضرور پہنچائیں پر کرپشن میں ملوث افراد کو سولی چڑھانے کی رٹ لگانے کی بجائے بہتر ہوگا کہ عدالتوں اور وکلا کو اعتماد میں لے کر انہیں اس بات پر راضی کیا جائے کہ وہ نان سٹاپ عدالتوں میں کرپشن کے تمام مقدمات کی روزانہ کی بنیادوں پر کاروائی کریں اور ان کو قانونی موشگافیوں کے بل بوتے پر مزید نہ لٹکایا جائے ہمارے ملک کے استغاثے کے محکمہ میں اہلیت کا فقدان ثابت ہو چکا ہے اور کرپشن کے جو اکثر مقدمات فیل ہوئے ہیں یاہو رہے ہیں اس ضمن میں متعلقہ حکام کو اصلاحات کرنا ہوں گی۔ ملک میں موجودہ سیاسی انتشار کو اگر سیاسی لوگوں نے دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ختم نہ کیا تو کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آ ے گا عقلمند کیلے اشارہ کافی ہوتاہے۔