کرکٹ کو کسی دور میں ”جینٹلمینز گیم“ کہا جاتا تھا پر یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب ففٹی ففٹی اور ٹوئنٹی ٹوئنٹی نام کی کوئی شے کرکٹ کی دنیا میں موجود نہ تھی ففٹی ففٹی شروع کرنے کا یہ جواز دیا گیا کہ چونکہ ٹیسٹ میچوں کے فیصلے نہیں ہوتے اس لیے وہ اب بور ہوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگ کرکٹ گراو¿نڈز کا رخ نہیں کرتے لہٰذا ان کو کرکٹ گراو¿نڈز کی طرف دوبارہ راغب کرنے کیلے ففٹی ففٹی کا اجرا ضروری ہے حالانکہ یہ دلیل بھونڈی تھی جسے وقت نے کئی کئی بار غلط ثابت کیا ٹیسٹ میچوں کے فیصلے ففٹی ففٹی کے مقابلوں کے اجراسے پہلے بھی ہوا کرتے تھے اور اس کے بعد بھی ہو رہے ہیں ان کی ایک اپنی اہمیت ہے کہ جو ففٹی ففٹی یا ٹوئنٹی20 کے اجراءسے کسی طور بھی کم نہیں ہوئی البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ محدود دورانیہ کے میچوں کے اس تجربے نے کرکٹ کو کافی بد نام کیا اورکئی کرکٹ کے کھلاڑیوں کو مختلف نوعیت کی مالی بدعنوانی کرنے کے جرم میں جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی آج کل لوگ کرکٹ کو جینٹلمینز گیم کہنے سے کتراتے ہیں۔ یہ امر قابل افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں کرکٹ کے نوجوان شیدائیوں کو پاکستان کے کئی پرانے عظیم کرکٹرز کے بارے میں اتنی جانکاری نہیں کہ جتنی ہونی چاہئے آپ نے یہ بات ضرور محسوس کی ہو گی کہ اکثر ممالک اپنے عظیم کھلاڑیوں کو ہر سال ان کی برسی یا یوم پیدائش پر باقاعدہ ٹیلی ویژن کے دستاویزی پروگراموں کے ذریعے یاد کرتے ہیں اور اپنی نئی نسل کو ان کے کارہائے نمایاں سے آگاہ کرتے رہتے ہیں جبکہ اپنے ہاں اس قسم کی روایت آپ کو شاذ ہی ملے گی ہونا تو یہ چاہیے کہ ان کے کھیل پر پر پاکستان ٹیلی ویژن خصوصی دستاویزی فلمیں بنائے جو پھر کسی خاص موقع ہر سال ٹیلی کاسٹ کی جائیں اس ضمن میں پاکستان کرکٹ ٹیم کا 1954 میں انگلستان کا دورہ بڑی اہمیت کا حامل تھا اس دورے میں پاکستان کی کامیابی نے دنیائے کرکٹ کے کرتا دھرتوں کو مجبور کر دیا کہ وہ پاکستان کو ٹیسٹ کرکٹ کا آفیشل سٹیٹس دینے کا اعلان کر دیں اس ضمن میں اگست 1954 میں لندن کے مشہور زمانہ کرکٹ گراو¿نڈ Oval اوول میں پاکستان نے پہلی مرتبہ انگلستان کی ٹیم کو 24 رنز سے شکست دی اس دور میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے جن کھلاڑیوں نے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا ان میں حنیف محمد ‘ علیم الدین ‘ وقار حسن مقصود احمد‘ شجاع الدین‘ ذوالفقار احمد ‘عبد الحفیظ کاردار‘فضل محمود ‘محمود حسین ‘خان محمد‘وزیر اور محمد امتیاز احمد شامل تھے افسوس کہ ایک آ دھ کو چھوڑ کر آج ان میں سے کوئی بھی بقید حیات نہیں ہے اس ٹیم میں خاص کر جس کھلاڑی کی کارکردگی کو بہت یاد کیا جاتا ہے وہ تھی میڈیم فاسٹ باﺅلر فضل محمود کی باﺅلنگ‘ ان کے لیگ کٹرز کو انگریز بلے باز بالکل نہیں کھیل سکتے تھے پاکستان کرکٹ ٹیم کو آج تک عبد الحفیظ کاردار جیسا کپتان پھر دوبارہ میسر نہیں آیا وہ اوسط درجے کے آل راو¿نڈر تھے پر ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ایک اعلی قسم کے منتظم تھے جہاں تک ڈسپلن کا تعلق تھا ٹیم کے تمام کھلاڑی ان کی عزت بھی کرتے تھے اور ان سے خائف بھی رہتے ہیں بلے بازی میں حنیف محمد کا جواب نہ تھا ہندوستان کے عظیم بیٹسمین سنیل گواسکر حنیف محمد کی بلے بازی سے بڑے متاثر تھے اور وہ اپنی بیٹنگ حنیف محمد کے انداز میں کیا کرتے تھے کیا ہی اچھا ہو اگر 1954 کی اس ٹیم پر ایک دستاویزی فلم بنائی جائے جو ہر سال اگست کے مہینے میں ٹیلی کاسٹ کی جائے کیونکہ اگست 1954 میں پاکستان نے اوول کے میدان میں ٹیسٹ میچ جیت کر دنیائے کرکٹ میں صحیح معنوں میں اپنی شناخت کروائی تھی ۔