دسمبر کے مہینے کے دوسرے پندرواڑے کو وطن عزیز کا سیاہ ترین پندرواڑہ کہا جا سکتاہے کیونکہ 16 دسمبر کے دن 1971 ءمیں اگر یہ ملک دو ٹکڑے ہوا تو اسی دن 2014 ءمیں ہمارے دشمنوں نے پشاور کے ایک سکول میں ہمارے کئی جگرگوشوں کو بےدردی سے شہید کیا ان دونوں واقعات میں ہمارے ازلی دشمن بھارت کا گہرا ہاتھ تھا اس قسم کے حادثات سے سبق لینے کی ازحد ضرورت ہے کیونکہ اگر ہم سے یا ہمارے حکمرانوں سے ماضی میں کوئی ایسی غلطیاں ہوئی ہوں کہ جو ان واقعات کا پیش خیمہ بنی ہوں تو آئندہ ان سے عبرت حاصل کر کے ہمیں مستقبل میں ان سے اجتناب کرنا چاہئے ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سابقہ مشرقی پاکستان کے ہمارے بنگالی بھائیوں نے پاکستان کی تحریک میں بے پناہ قربانیاں دیں‘ کئی غیر جانبدار سیاسی مبصرین کا یہ خیال ہے کہ انیس سو اڑتالیس سے لے کر 1965 ءتک اس ملک میں جو بھی حکمران تھے انہوں نے قومی وسائل اور دولت کی تقسیم اور ترقیاتی کاموں میں انصاف نہیں کیا جس کی وجہ سے ہمارے بنگالی بھائیوں میں احساس محرومی پیدا ہوا اور اس احساس محرومی کو پھر ہمارے ازلی دشمن بھارت نے پاکستان کے خلاف استعمال کیا اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی معاشرہ شاید تباہی سے بچ جائے پر وہ معاشرہ اور ملک بربادی سے نہیں بچ سکتا کہ جس میں نا انصافی ہو ‘ سابقہ مشرقی پاکستان میں ہمارے حکمرانوں سے جو لغزشیں ہوئیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ملک کے محب وطن لوگ حکومت سے بارہا کہتے آئے ہیں اور اب بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ ملک کے پسماندہ صوبوں خصوصاً ًبلوچستان کی طرف خصوصی توجہ دے کہ جس پر ہمارے ازلی دشمنوں کی بری نظر جمی ہوئی ہے اور وہ ملک کے اس پسماندہ صوبے میں بھی اسی قسم کے حالات پیدا کرنا چاہتا ہے جو اس نے سابقہ مشرقی پاکستان میں پیدا کئے تھے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر بھارت افغانستان کو استعمال نہ کرتا تو کم ازکم ہم اپنی مغربی سرحد کی طرف سے تو مطمئن ہوتے بلوچستان اور خصوصاً سابقہ فاٹا اور خیبرپختونخوا میں جو بھی دہشت گردی کی کارروائی ہوتی ہے اس میں بلا مبالغہ افغانستان کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہوتا ہے جتنا کہ بھارت کاکیونکہ ڈیورنڈ لائن ایک آزاد علاقہ ہے کہ جس کے ذریعے ہر کوئی افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل ہوکر یہاں اپنی من مانیاں کر سکتا ہے یہ جو افواج پاکستان آج کل خیبر پختونخوا کے ساتھ ملحقہ سابقہ فاٹا میں افغانستان کے بارڈر پر باڑ لگا رہے ہیں یہ کام آج سے کئی برس پہلے ہو جانا چاہئے تھا چلو دیر آید درست آید اب بھی اگر اس کام کو فوراً سے پیشتر مکمل کر لیا جائے اور ڈیورنڈ لائن پر جگہ جگہ فوج کے قلعے بنا دیئے جائیں اور بارڈر پر کڑی نظر رکھی جائے اور افغانستان سے پاکستان آنے والے شخص کو صرف ویزے کے ذریعے چھوڑا جائے تو پھر بھی حالات کو کنٹرول میں لایا جا سکتا ہے ۔آج کل بلوچستان میں سی پیک کے تحت چین بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے اور وہاں زندگی کے ہر شعبے میں کئی ترقیاتی منصوبے شروع کر دیئے گئے ہیں حکومت اس بات کا اہتمام کرے کہ مقامی باشندوں کو ان منصوبوں میں سٹیک ہولڈر بنائے ۔