لاہور مسلم لیگ کا گڑھ ہے لہٰذا اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں اگر اپوزیشن والوں نے گذشتہ اتوار کو وہاں ایک بڑے جلسے کی شکل میں مینار پاکستان کے سائے میں ایک میلہ لگایا گو کئی غیر جانبدار سیاسی مبصرین کے مطابق جتنی محنت مریم نواز شریف نے کی تھی اس کے صلے میں اتنے لوگ جلسہ گاہ میں نہ آئے کہ جتنے آنے چاہئے تھے اور یہ امر نواز لیگ کےلئے یقینا لمحہ فکریہ ہونا چاہئے اس جلسے میں حاضرین کی تعداد کو دیکھ کر ایک مرتبہ پھر یہ محسوس کیا گیا کہ پی پی پی کی لاہور میں اب وہ پوزیشن نہیں رہی کہ جو کبھی تھی بلاول بھٹو کو ان کے ایڈوائزر نے یہ سمجھایا ہے کہ وہ نواز لیگ کے جتنے نزدیک ہو سکتے ہیں ہو جائیں کیونکہ لاہور میں دوبارہ قدم جمانے کےلئے انہیں اس وقت نواز لیگ کے تعاون کی ضرورت ہے اور شاید اس طریقے سے پی پی پی لاہور کی حد تک دوبارہ فعال ہو سکے یہی وجہ ہے کہ آج کل وہ مریم نواز اور شہباز شریف دونوں سے روابط بڑھا رہے ہیں اکثر سیاسی مبصرین کے خیال میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ آیندہ الیکشن میں کم از کم پنجاب کی حد تک پی پی پی اور نواز لیگ آپس میں اکھٹے مل کر الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں یہ بات تو خیر کوئی بھی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اس جلسے کے ملک کی سیاست پر کیا منفی یا مثبت اثرات پڑیں گے پر اس بات کو خارج از امکان نہیں کیا جاسکتا کہ آئندہ دس پندرہ دنوں کے اندر اندر اس جلسے کی وجہ سے ملک کے کئی شہروں میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوگا اور وہ اس لیے کہ اس جلسے میں ملک کے کئی علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں نے شرکت کی تھی اور کوونا وائرس کسی بھی انسانی جسم میں اجاگر ہونے میں دس پندرہ دن کا وقت لیتا ہے سچی بات تو یہ ہے کہ حکومت بار بار عوام کو کورونا وائرس سے بچنے کےلئے جو حفاظتی تدابیر ر بتا رہی ہے وہ صدائے بصحرا ثابت ہو رہی ہے جو لوگ از خود خودکشی کرنے پر تلے ہوئے ہوے ہوں انہیں بھلا کون بچا سکتا ہے؟لاہور کے جلسہ عام میں اپوزیشن کے رہنماو¿ں نے جو دھواں دار تقاریر کی ہیں ان سےتو یہ گمان ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی تمام کشتیاں جلا ڈالی ہیں اور وہ اب اس بات پر بضد ہیں کہ جب تک پاکستان کے وزیراعظم کو وہ گھر نہ بجھوا دیں وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کےلئے بیٹھے کو تیار نہیں ہیں۔ جس طرح ہم نے کچھ عرصہ پہلے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ پی ڈی ایم کی یہ موجودہ تحریک دراصل اس تحریک کے روح رواں رہنماو¿ں اور حکومت وقت کے لیڈروں کے درمیان اعصاب کی جنگ ہے اور یہ جنگ وہ فریق جیتے گا کہ جو مضبوط اعصاب کا مالک ہوگا ۔اس طرح یہ کہنا غلط نہیںہوگا کہ اس وقت سیاسی تندور گرم ہے اور دسمبر کی سردی میں جون جولائی کی گرمی کا ماحول برپا کردیا گیا ہے۔ تاہم اس کے سب کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ سیاسی اختلافات کواس نہج پر نہ پہنچایا جائے کہ آپس میں بات چیت کے درروازے ہوں۔ موجودہ حالات میں تو یہی لگ رہا ہے۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی قیادت حالات کی نزاکت کا اندازہ کرتے ہوئے ملکی سالمیت کو درپیش چیلنجز کا متحد ہوکر مقابلہ کرنے کیلئے ماحول بنادے۔ ساتھ ہی دوسری طرف کورونا وائرس کے حملے بھی تیز ہو گئے ہیں اور ملک بھر سے حالیہ جلسوں میں شریک ہونے والوں میں سے بہت سے کورونا کے مریض بن کر اپنے علاقوں میں پہنچیںگے جس سے کورونا کی دوسری لہر جو پہلے ہی شدت اختیار کرگئی ہے مزید خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔عوام کی جان و مال کی حفاظت ایک طرف اگر حکومت کی ذمہ داری ہے تو دوسری طرف حز ب اختلاف کو بھی اس ضمن میں اپنی ذمہ داریوں کااحساس کرنا ہوگا اور جو تحریک فی الحال شروع ہے اسے کسی اور وقت پر ٹالتے ہوئے کورونا وباءکی طاقت اور بڑھنے کی رفتار کو کم کرنے پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ عوام کےساتھ رابطے کے اب بہت سے جدید اور نت نئے طریقے موجود ہیں جن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ عوام سے رابطے کی مہم چلا سکتے ہیں ۔ جہاںتک پی ڈی ایم کی طرف سے حکومت کو ڈیڈلائن دینے کی بات ہے تو یہ اب جبکہ آدھے سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اب حکومت کو اگر مدت پوری کرنے دی جائے تو بہتر ہوگا تاکہ عوام جان سکیں کہ پوری مدت گزارنے کے بعد ان کی کارکردگی کیسے رہی۔ جوعرصہ رہ گیا ہے اس میں جہاں حکومت کواپنے ایجنڈے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے وہاں حزب اختلاف اگر عوام رابطہ مہم چلائے تو اگلے الیکشن کیلئے یہ ان کیلئے ایک بھرپور کوشش ثابت ہوگی ۔ یعنی اس وقت عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں اور حکومت سے یہ توقع کر رہے ہیں کہ وہ اپنے باقیماندہ مدت میں اپنے ایجنڈے کی تکمیل کرتے ہوئے عوام کے مسائل کوحل کرنے پر توجہ مرکوز کرے عین ممکن ہے کہ حکومت کی اچھی کارکردگی پران کو دوبارہ عوامی تائید ملے۔