سالنامہ: اقتصادی جائزہ

سال دوہزاربیس کے دوران کورونا وبا کی وجہ سے دنیا کا ہر ملک اور ہر ملک کی معیشت کسی نہ کسی صورت متاثر ہوئی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک سے لے کر ترقی پذیر قوموں تک کورونا سے متاثر لیکن پاکستان کی معاشی حالت پر دیگر کئی محرکات بھی اثرانداز ہوئے جن میں سے امریکی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر ہے اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان میں صرف ڈالر ہی معاشی ترقی و تنزلی کا پیمانہ ہے۔ یکم جنوری 2020ءکو پاکستان میں ڈالر کی قیمت قریب154روپے تھی اور دسمبر 2020ءمیں اس کی قیمت تقریباً 160 روپے کے آس پاس ہے لیکن ایک موقع پر رواں سال ہی کے دوران ڈالر کی قیمت 170 روپے تک بھی جا پہنچی تھی۔ ڈالر کی قیمت میں بے ترتیب اتار چڑھاو¿ کی وجہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے حکومت کا معاہدہ ہے۔ جس کی شرائط میں شامل ہے کہ ’سٹیٹ بینک‘ ڈالر کو کنٹرول نہیں کرے گا اور طلب و رسد کی بنیاد پر مارکیٹ خود ہی قیمت کا تعین کرے گی لیکن ایک سال میں جو اتار چڑھاو¿ دیکھا گیا ہے ماضی میں ایسی مثالیں بہت کم ہیں۔ ماضی میں ڈالر کی قیمت میں بڑا اضافہ تو ہوتا رہا لیکن بارہ روپے جیسی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ سال 2014ءمیں جب ڈالر کی قیمت 108روپے تھی تو شیخ رشید نے دعویٰ کیا تھا کہ حکومت ڈالر کی قیمت 100روپے پر نہیں لاسکتی مگر اس وقت کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار سعودی عرب کی جانب سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی مبینہ امداد کو استعمال کرتے ہوئے ڈالر کی قیمت ستانوے روپے تک لانے میں کامیاب ہوگئے تھے لیکن وہ ایک مصنوعی طریقہ تھا جبکہ موجودہ کمی مارکیٹ کے اصولوں کے تحت ہوئی۔ حکومت نے ڈالرز کے ذخائر بڑھانے کے لئے جو قانون سازی کی‘ اس نے ملک میں روپے کی قدر کو مضبوط کیا۔ تحریک انصاف حکومت نے شروع دن سے بیرونِ ملک پاکستانیوں پر خاص توجہ دی ہے مگر عمران خان کی درخواست کے باوجود بھی وہ پاکستان میں ڈالر بھیجنے پر راضی نہیں تھے۔ حکومت نے بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ڈالر اکاو¿نٹس پر سات فیصد تک منافع کی پیشکش کی جبکہ دنیا میں یہ شرح صفر اعشاریہ پانچ فیصد سے ایک فیصد کے درمیان ہے۔ اس کے علاوہ بیرونِ ملک بیٹھے پاکستانیوں کو آسان شرائط پر آن لائن کھاتے (بینک اکاو¿نٹ) کھلوانے کی سہولت بھی مہیا کردی گئی۔ ادائیگیاں بھی آن لائن ہوں گی اور وصولیاں بھی‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ چند ماہ میں ہزاروں کی تعداد میں ”روشن ڈیجیٹل اکاو¿نٹس“ کھلے اور اب تک ان میں کروڑوں ڈالر جمع ہوچکے ہیں۔ گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر کے مطابق پاکستان روزانہ تقریباً بیس لاکھ ڈالر روشن ڈیجیٹل اکاو¿نٹ میں وصول کر رہا ہے اور تیئس نومبر 2020ءتک پاکستان قریب سولہ ارب روپے حاصل ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ’فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف)‘ کے سخت قوانین نے ڈالر کو 170روپے کی سطح سے نیچے لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سخت سزاو¿ں کی بدولت جعلی منی چینجرز نے کاروبار بند کر دیئے ہیں اور بیرونِ ملک پاکستانی قانونی راستے کے ذریعے رقم پاکستان بھجوانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ایک اہم وجہ کورونا وائرس بھی ہے جس کی وجہ سے قرضوں کی ادائیگی میں ریلیف ملا ہے۔ پاکستان جی ٹوئنٹی ممالک سے بھی تقریباً اَسی کروڑ ڈالر قرضوں کی ادائیگیوں میں وقت لینے میں کامیاب ہوگیا ہے گوکہ آج بھی ڈالر کی قیمت جنوری دوہزاربیس سے زیادہ ہے لیکن ڈالر کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے حکومتی کاوشیں بہتر دکھائی دیتی ہیں۔ اِسی طرح کسی بھی ملک کی برآمدات ملکی ترقی میں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ کاروبار کا دور ہے اور کارپوریٹ سیکٹر ہی اصل حکمران ہے۔ آج کے ترقی یافتہ ممالک وہ ہیں جن کے تاجر خوشحال ہیں۔ اگر آپ دنیا کو اپنی چیزیں بیچ نہیں سکتے تو آپ چاہے بے پناہ ذخائر کے مالک ہی کیوں نہ ہوں آپ معاشی طور پر مضبوط نہیں ہوسکتے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے بھی برآمدات بڑھانے کے دعوے کئے تھے جس میں خاطر خواہ اضافہ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ اگر گزشتہ بارہ ماہ کی بات کی جائے تو نومبر دوہزار اُنیس میں پاکستان کی برآمدات قریب دو ارب ڈالر تھیں اور نومبر دوہزاربیس کے اعداد و شمار کے مطابق برآمدات میں صرف سات اعشاریہ دو فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال نومبر کے مہینے میں درآمدات میں صرف سات اعشاریہ دو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایک سال میں یہ کارکردگی زیادہ حوصلہ افزا دکھائی نہیں دے رہی۔ اگر ان بارہ مہینوں کے دوران کارکردگی دیکھی جائے تو کئی مہینوں میں تو برآمدات ڈیڑھ ارب ڈالر سے بھی کم رہی ہیں۔ تسلی بخش کارکردگی نہ ہونے کی وجہ کورونا کو بھی قرار دیا جا رہا ہے لیکن ایشیا کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں معاشی سرگرمیاں کم عرصے تک بند رہی ہیں۔ بھارت اور چین میں ہونے والے نقصان کا فائدہ پاکستان نے اٹھایا ہے۔ ٹیکسٹائل کے شعبے کے بیشتر آرڈر چین اور بھارت سے کٹ کر پاکستان کو ملے ہیں لیکن برآمدات میں مطلوبہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آرہا۔جولائی 2020ءمیں چاولوں کی برآمدات جولائی 2019ءکی نسبت کم رہیں۔ ادارہ شماریات کے مطابق جولائی 2019ءمیں چاولوں کی برآمدات تین لاکھ پینسٹھ ہزار ٹن سے زیادہ تھی جو جولائی دوہزاربیس میں کم ہوکر دو لاکھ چھیاسٹھ ہزار ٹن رہ گئی ہے۔ رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق چاول پاکستان میں کپاس کے بعد دوسری بڑی برآمدی جنس ہے لیکن حکومت کی طرف سے عدم توجہی کے باعث چاول کی برآمدات کم ہو رہی ہیں۔ سال 2010ءمیں پاکستان سے چاولوں کی برآمدات قریب تین ارب ڈالر تھی جو کم ہو کر قریب دو ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر کام نہ ہونا ہے۔ کالا شاہ کاکو رائس ریسرچ انسٹیٹیوشن‘ پاکستان بننے سے پہلے قائم ہوا تھا لیکن آج تک چاولوں اور خاص طور پر باسمتی کی کاشت بہتر بنانے کے لئے کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہوا۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: میاں عمران۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)