میر کیا ساد ہ ہیں بیمارہوئے جس کے سبب ”اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں“اس وقت ملک میں سیاسی گرما گرمی ہے اور جلسوںجلوسوں کے ذریعے حکومت کو رخصت کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں ۔ حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر کہ جو اچھی طرح جانتے بوجھتے ہوئے کہ گزشتہ کئی برسوں سے حکومت میںہوتے ہوئے وہ اگر عوام کے مسائل حل نہیں کرسکے تو پھر آزمائے ہوئے کو دوبارہ آزماناکیا دانشمندی ہے ؟کیا اس طرزعمل سے یہ اخذ کر لیا جائے کہ ہم میںمردم شناسی کی کمی ہے یا اپنے فائدے اور نقصان کاادرک نہیں رکھتے۔شاعر مشرق کہتے ہیں” جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے“سر ونسٹن چرچل نے البتہ یہ کہا تھا کہ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ جمہوریت ہی سب سے اچھا نظام حکومت ہے پر جب تک اس سے کوئی بہتر نظام دریافت نہیںہوتا یہ ہی سب سے بہتر نظام ہے وطن عزیز کے عام آدمی کو تو اس قسم کے پارلیمانی نظام سے کوئی خاص فائدہ نہیںہوا کہ جو اس ملک میں لاگو ہے ، ہر کوئی اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کیلئے ہی حکومت میں آتا ہے۔ اب کوئی بھی ذی شعور انسان اس قسم کے جمہوری نظام کی تائید نہیں کر سکتا ‘ہم نے اکثر لوگوں کہ جو وطن عزیز میں لاگو پارلیمانی نظام سے تنگ آ چکے ہیں اور جن کے نزدیک یہ نظام ان کے مسائل کا مداوا نہیں کر سکتا کو جھولی اٹھا اٹھا کر یہ دعا کرتے سنا ہے کہ اے مولا اس ملک کو بھی کوئی مخیر اور غریبوں کی مدد کرنے والا ڈکٹیٹر عطا کر دے کہ جیسا تم نے ماضی قریب میں دنیا کے کئی ممالک کو عطا کئے اور جنہوں نے وہاں کے عام آدمی کی جیسے کایاہی پلٹ دی جمہوری نظام حکومت میں بھی عوام دوست لیڈر پیدا ہوتے آئے ہیں پر وہ ہم جیسے ممالک میں خال خال آئے ہیںبانی پاکستان اور قائد ملت کے بعد شاید ہی ہیں کوئی ایسا رہنما اس ملک کو نصیب ہوا ہو کہ جس نے سرکاری خزانے پر ہاتھ صاف نہ کئے ہوں گفتار کے غازی تو آپ کو کئی نظر آئیں گے پر کردار کے غازی آ پ کو دوربین میں بھی نظر نہیں آتے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس خطے کے کچھ حکمران ٹیکس دہندگان کے پیسوں پرمزے کرتے نظر آئے ہیں اور انہیں یہ احساس کبھی بھی نہیں ہوا کہ اس ملک کے کروڑوں افراد کو دن بھر میں دو دفعہ کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا عام آدمی کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ پارلیمانی جمہوریت کیا ہے اور صدارتی نظام کس کو کہتے ہیں اسے دن میں دو وقت کی روٹی چاہئے سر کے اوپر اپنی چھت درکار ہے بیماری کی صورت میں علاج معالجے کےلئے اس کی جیب میں اتنی رقم درکار ہے کہ وہ یا اس کے خاندان کا کوئی فرد دوائی نہ ملنے کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نہ مرے اور اس کے بچوں کی تعلیم کےلئے مناسب بندوبست ضروری ہے پارلیمانی جمہوریت کس کام کی اگر وہ اس کی زندگی کی یہ بنیادی ضروریات نہ پوری کر سکے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر موجودہ حکومت کچھ زیادہ مثالی کارکردگی بھی نہ دکھا سکی تو پھر بھی اسے اپنی مدت پوری کرنے دی جائے کہ عوام کی ووٹوں سے منتخب ہوکر آنے والوں کو اگلے الیکشن میںووٹ کے ذریعے ہی جواب مل جائیگا کہ وہ دوبارہ حکومت کا موقع پانے کے اہل ہیں یا نہیں۔