برِصغیر کی تقسیم سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی تک کے چوبیس برس کے دوران اس علیحدگی کی وجہ بننے والے عوامل کو 1971ءکے بعد مختلف جہتوں سے دیکھا گیا لیکن اس بات پر اتفاق رائے موجود ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت کا کردار ضرور تھا۔ جب کسی قومی ریاست میں خانہ جنگی پھوٹتی ہے اور اگر اس کے نتیجے میں ملک نہ بھی ٹوٹے تب بھی اس کی وجوہات اور نتائج کو ریاست کے مختلف طبقے مختلف نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اسے سمجھنے کےلئے امریکہ کی مثال لے لیں جہاں 1861ءسے 1865ءتک خانہ جنگی جاری رہی لیکن اب 155سال گزرنے کے بعد بھی وہاں تاریخ کے بارے میں مکمل اتفاق رائے نہیں ہے۔ اسی وجہ سے 2020ءمیں پاکستان میں بھی اتفاق رائے نہ ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم جس سانحے سے گزرے ہیں وہ بہت شدید ہے۔ امریکی خانہ جنگی کے نتائج کے برعکس پاکستان کا اصل ڈھانچہ تبدیل ہوگیا ۔ امریکہ کے برعکس پاکستان کے اس دشمن پڑوسی ملک نے اکیس نومبر 1971ءکو مشرقی پاکستان میں داخل ہوکر اس علیحدگی میں اپنا عملی کردار ادا کیا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب بنگلا دیش کے قیام کے تیسرے ہی سال یعنی جون 1974ءمیں وزیرِاعظم بھٹو نے بنگلا دیش کا دورہ کیا تو ان کا پُرجوش استقبال ہوا۔ یہ پُرجوش استقبال اس وجہ سے قابلِ ذکر ہے کہ بہت سے لوگ انہیں 1971ءمیں ہونے والے سانحے کی اصل وجہ قرار دیتے ہیں۔ اس وقت بنگلا دیش میں موجود بھارتی ہائی کمشنر جے این ڈکشٹ نے اس وقت کا آنکھوں دیکھا حال اپنی کتاب ”لبریشن اینڈ بیونڈ: انڈو بنگلادیش ریلیشنز“ میں لکھا ہے۔ وہ اس بات سے پریشان تھے کہ بھٹو کے استقبال کے دوران بھارت اور شیخ مجیب کے خلاف سڑکوں پر نعرے لگ رہے تھے۔ اسی طرح عوام کی جانب سے ان کی گاڑی پر لگا بھارتی جھنڈا بھی توڑنے کی کوشش کی گئی۔ بہرحال گزشتہ دس سالوں میں عوامی لیگ نے مخالف بیانیہ تشکیل دینے کےلئے خوب سرمایہ کاری کی ہے۔ کچھ افراد پر پاک فوج کا ساتھ دینے کا الزام عائد کرکے اور دکھاوے کی عدالتی کاروائی کے بعد پھانسیاں دے دی گئیں۔ اس کے علاو¿ہ متعصبانہ نظریے کا پرچار کرکے بنگلادیشی عوام کی دو نسلوں میں پاکستان کے خلاف تعصب بھر دیا گیا ہے۔۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (این ڈی یو) جیسے ادارے حالیہ برسوں میں حساس معاملات پر مباحثوں کا انعقاد کروا رہے ہیں۔ اسی طرح سول سوسائٹی اور سفارتی سطح پر بنگلا دیش کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کی بھی کوششیں کی جاسکتی ہیں۔ تعلقات پر جمی برف پگھلانے کےلئے پاکستان کی جانب سے معذرت میں پہل کی جاسکتی ہے۔ بنگلا دیش کی جانب سے بھی جلد یا بدیر اس کا ایسا ہی جواب آ سکتا ہے۔ سال 2021ءآبادی کے لحاظ سے دو بڑے مسلم ممالک اور جنوبی ایشیائی دوستوں کےلئے بہتر دو طرفہ تعلقات کا آغاز ثابت ہوسکتا ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان جاری فوجی‘ ثقافتی‘ تجارتی‘ تعلیمی‘ ذرائع ابلاغ‘ کھیل اور آرٹ کے شعبوں میں تبادلے میں اضافہ کرکے پاکستان کی سوہنی دھرتی اور سونار بنگلہ کے درمیان جسم و روح دونوں کا تعلق قائم کرکے ایک بہتر کل کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ (مضمون نگار سابق وزیراطلاعات و نشریات اور سنیٹرز ہیں۔ بشکریہ: ڈان۔ تحریر: جاوید جبار۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)