پاکستان کرکٹ کے ایک اور روشن ستارے نے یہ کہتے ہوئے پاکستان کی عالمی سطح پر نمائندگی کرنے سے معذرت کر لی ہے کہ ”مجھ پر ذہنی تشدد کیا جا رہا ہے‘ میں موجودہ کرکٹ بورڈ (انتظامیہ) کے ساتھ کرکٹ نہیں کھیل سکتا۔“ یہ چند الفاظ صرف عامر ہی کے نہیں بلکہ اِن کی گونج ماضی میں بھی سنائی دیتی رہی ہے اور کئی دیگر کھلاڑی بھی اِسی قسم کی شکایات کر چکے ہیں‘ جنہیں سُنا اَن سُنا کر دیا گیا۔ عامر نے ’لنکا پریمیر لیگ‘ کے اختتام پر عالمی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تو اُن کے ملکی و غیرملکی مداح اور کرکٹ کو سمجھنے‘ دیکھنے اور سراہنے والوں کےلئے یہ اعلان کسی صدمے سے کم نہیں تھا بالخصوص ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک کا سربراہ (وزیراعظم عمران خان) خود بھی کرکٹر ہیں اور اُنہیں اکثر ”کپتان“ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے تو وہ وزیراعظم ہونے سے زیادہ ”کپتان“ کے لقب کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کرکٹ شائقین کا صدمہ اور حیرت اپنی جگہ جائز ہے۔عامر کے فیصلے کی ظاہری وجہ وقار یونس کا پاکستانی میڈیا کو دیا گیا ایک انٹرویو ہے‘ جس میں وقاریونس نے عامر کی ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کی وجہ کام کی زیادتی (ورک لوڈ) کی بجائے ’کچھ اور‘ قرار دی تھی۔ وقار یونس کے مذکورہ انٹرویو سے ایسا تاثر ملا تھا کہ جیسے عامر پاکستان کےلئے کھیلنے سے زیادہ پیسہ کمانے کی فکر میں رہتے ہیں اور اُن کی کرکٹ کے کھیل میں دلچسپی کم ہو گئی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ شاید اِسی قسم کے روئیوں کی وجہ سے عامر نے پچھلے سال ون ڈے ورلڈکپ کے بعد ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا۔ عامر کے بقول ریٹائرمنٹ کی وجہ ان کا ورک لوڈ تھا۔ عامر کے مطابق ان کا جسم تینوں فارمیٹ کی کرکٹ کو برداشت کرنے کے قابل نہیں رہا اور وہ اپنے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کیریئر کو طول دینے کےلئے ٹیسٹ کرکٹ سے الگ ہوئے ہیں۔عامر کا کیریئر سال 2009ءمیں شروع ہوا تھا‘ جب وہ سولہ برس کے تھے۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے فائنل میں ان کا پہلا اوور پاکستان کے چمپیئن بننے کی اہم وجہ ثابت ہوا تھا۔ ٹورنامنٹ کے ٹاپ اسکورر تلکارتنے دلشان کو عامر نے جس طرح پہلے ہی اوور میں آو¿ٹ کیا تھا‘ اسی وکٹ نے پاکستانی ٹیم کی فتح کی بنیاد رکھی تھی۔ پھر اسی سال دورہ آسٹریلیا پر آصف کے ساتھ عامر کی جوڑی بنی تو ایسا لگا تھا کہ پاکستان کو وسیم اکرم اور وقار یونس دوبارہ مل گئے۔ اس کے بعد دورہ برطانیہ کے دوران بھی دونوں بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا تھا لیکن وہی برطانیہ کا دورہ بربادی اور ذلت کے ایسی داستان میں بدل گیا جس نے پاکستان کرکٹ کا راستہ ہی بدل دیا۔ اگرچہ سپاٹ فکسنگ سکینڈل نے پاکستان کرکٹ کو ایک بہتر راستے پر ضرور گامزن کردیا لیکن پاکستان نے دو ایسے بہترین باو¿لرز کھو دیئے‘ جن کی کمی آج تک پوری نہیں ہوسکی عامر کا بظاہر مقصد ایک عرصے سے یہی رہا ہے کہ وہ پاکستان کی طرف سے چنیدہ میچ کھیلیں جس سے انہیں مختلف لیگز کے کنٹریکٹ حاصل کرنے میں آسانی ہو۔ پچھلے سال جب عامر نے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لی اور وہاب ریاض نے وقفہ لینے کا فیصلہ کیا تو راشد لطیف اور شعیب اختر سمیت متعدد سابق کھلاڑیوں نے اس فیصلے پر تنقید کی تھی۔ راشد لطیف نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جو کھلاڑی کرکٹ سے دور بھاگتا ہے تو کرکٹ بھی اس سے دور بھاگتی ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: شہزاد فاروق۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)