پاکستان میں سیاست سے متعلق چھ زمینی حقائق لائق توجہ ہیں۔ 1: وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف اِس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اُس کی سیاست کی بقا و دوام اِسی میں ہے کہ اُن عناصر سے کسی بھی صورت مفاہمت نہ کی جائے‘ جن کی سیاست‘ نظریات اور عمل سے اختلاف ہے۔ اِسی سوچ اور سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے اہم قومی امور پر بھی اتفاق رائے پیدا نہیں ہو رہا جیسا کہ کورونا وبا کے خلاف حزب اختلاف کی جماعتیں جانتے بوجھتے اور سمجھنے کے باوجود حکومتی مو¿قف کو تسلیم نہیں کر رہی جو ایک جان لیوا مہم جوئی ہے۔ 2: حزب اختلاف کی ترجیح ’عوام کو درپیش مشکلات (مہنگائی‘ گندم چینی بجلی وغیرہ کی قیمتوں میں اضافے) نہیں۔ 3: حکومت کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے تحریک کا آغاز کیا گیا لیکن اِس میں تاحال گیارہ سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کے علاوہ دیگر مکاتب فکر کے لوگ شریک نہیں ہوئے‘ جس کی حزب اختلاف کی جماعتوں کو توقع تھی۔ 4: حکومت کی اچھی کارکردگی سوشل میڈیا‘ انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن چینلوں کے ذریعے تشہیر ہونے والے وسائل کی حد تک محدود ہے جبکہ زمینی حقائق حکومتی دعوو¿ں کے برعکس (مختلف) ہیں۔ 5: پارلیمینٹ کا ادارہ عملاً مفلوج ہو کر رہ گیا ہے ۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف اپنی اپنی سیاست اور منصوبوں کو سڑکوں پر لے آئے ہیں۔ 6: تحریک انصاف کے فیصلہ ساز سٹیبلشمنٹ کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے سٹیبلشمنٹ کے خلاف حزب اختلاف کے جارحانہ رویوں کی مثالیں دیتے ہیں جبکہ وہ اپنے خلاف حزب اختلاف کی تحریک کی ناکامی کے لئے سٹیبلشمنٹ کے کردار کے بھی خواہاں ہیں۔سیاسی زمینی حقائق ہی کی طرح 5 معاشی حقائق بھی لائق توجہ ہیں۔ 1: گزشتہ 2 سال کے دوران پاکستان میں غربت بڑھی ہے۔ غربت کا یہ اضافہ کل آبادی کا تیس سے چالیس فیصد ہے یعنی 2 کروڑ پاکستانی ”خط غربت‘ ‘سے نیچے چلے گئے ہیں۔ اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ 2 کروڑ پاکستانیوں کی یومیہ آمدنی عالمی پیمانے (قریب 2 امریکی ڈالرز‘ تین سو روپے) سے کم ہے۔ 2: مہنگائی کی شرح میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے اور یہ اضافہ گزشتہ 2 برس سے مسلسل جاری ہے اور مہنگائی کے ساتھ بیروزگاری بھی بڑھی ہے۔ 3: پاکستان کا قومی قرض مجموعی قومی آمدنی سے زیادہ ہو چکا ہے یعنی پاکستان کی سالانہ آمدنی قرض کی سالانہ اقساط اور سود ادا کرنے کے لئے ناکافی ہیں۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ قومی آمدنی کے ہر100 روپے میں سے 107 روپے قرض کی اقساط یا سود کی صورت ادا کرنے پڑ رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ قرض ادا کرنے کے لئے مزید قرض لینے پڑتے ہیں۔ 5: پاکستان کی 62 سالہ معاشی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیاہے کہ قومی آمدنی‘ قومی اخراجات اور مالی ذمہ داریوں سے کم ہے۔پاکستان کے سیاسی اور معاشی زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر حزب اختلاف کی حکمت عملی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہی ہیں۔ ایک طرف وہ سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہیں۔ ٹیلی ویژن پر ہونے والے بحث و مباحثوں میں حکومت کی خبر لے رہی ہیں اور دوسری طرف پس پردہ ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے مفاہمت کی کوششیں بھی کر رہی ہیں۔ حزب اختلاف کے بظاہر 3 اہداف ہیں۔ 1: حکومت پر بذریعہ عوام اور سٹیبلشمنٹ دباو¿ ڈالا جائے۔ 2: حکومت کو کمزور کیا جائے۔ امور مملکت چلنے نہ دیئے جائیں۔ اصلاحات اور ترقی کے عمل کو روکا جائے اور 3: سیاسی خلا پیدا کیا جائے۔ قابل ذکر ہے کہ حزب اختلاف اب تک کی اپنی کوششوں میں ناکام ہوئی ہے کہ اُس نے سب سے پہلے سٹیبلشمنٹ پر دباو¿ ڈالنے کی کوشش کی اور سٹیبلشمنٹ کو اشتعال دلانے کے لئے الزامات لگائے۔ دوسرے مرحلے میں لانگ مارچ اور اجتماعی استعفوں کے ذریعے دباو¿ ڈالا جائے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ سٹیبلشمنٹ نے اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے ہمیشہ وقت کی حکومت کا ساتھ دیا ہے لیکن یہ ساتھ اُس وقت تک رہتا ہے جب تک عوام سڑکوں پر نہ نکل آئیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ سٹیبلشمنٹ کے لئے قومی مفاد ترجیح ہے اور سٹیبلشمنٹ ہمیشہ قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی فیصلے کرتی ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)