سیاحتی ترقی اِمکانات: پہاڑی سلسلے

پاکستان سیاحتی اثاثوں سے مالا مال ایک ایسی دھرتی ہے جہاں موجود چودہ پہاڑی چوٹیاں اِسے منفرد و ممتاز بناتی ہیں‘ اِن میں سے پانچ چوٹیاں آٹھ ہزار میٹر سے بھی زیادہ بلند ہیں لیکن پھر بھی ہم میں سے چند ہی کوہ پیمائی کو کرکٹ سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اس بات میں تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ ہمارے رول ماڈل پہاڑوں کی بجائے میدانوں سے کیوں آتے ہیں۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں اگر اِس قدر بلند چوٹیاں ہوتیں تو وہاں کوہ پیمائی خاص مشغلہ ہوتا۔ بہرحال کسی بھی کامیابی یا کارنامے کو حاصل کرنے کی انفرادیت کو مثال کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔ جیسے فرسٹ کلاس کرکٹ میں لگاتار چھ گیندوں پر چھ چھکے لگانے کا ریکارڈ سر گارفیلڈ سوبرز نے قائم کیا تھا۔ بعد میں روی شاستری نے اسے برابر کردیا۔ سوچتے ہیں کہ لگاتار دو اوورز تک ہر بال پر چکھا لگے۔ ظاہر ہے یہ آج تک نہیں ہوا۔ اچھا اب یہ فرض کریں کہ پوری اننگ کے دوران ہر بال پر چھکا لگے یا پھر ایک کے بعد دس گیندوں پر 10وکٹیں گرجائیں۔ اکثر لوگ کہیں کہ یہ ممکن تو ہے لیکن شاید کبھی ایسا ہو نہ سکے۔ سردیوں کے موسم میں ’قاتل پہاڑ‘ کہلائے جانے والے نانگا پربت کو سر کرنا بھی ایسا ہی ہے لیکن معلوم تاریخ میں ایسا ہوچکا ہے۔ سال 2016ءمیں علی سدپارہ نے یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔ ان کے ساتھ سپین کے ایلکس ٹیکسیکن اور اٹلی کے سائمن مورو بھی موجود تھے۔ اِس سال علی سدپارہ نے تاریخ میں پہلی مرتبہ سردی کے موسم میں ’کے ٹو‘ کو سر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چوالیس سالہ سدپارہ کے ساتھ ان کے بیٹے بائیس سالہ سجاد اور آئس لینڈ سے تعلق رکھنے والے سینتالیس سالہ جان سونری بھی ہوں گے۔سکردو کے نزدیک واقع گاو¿ں سدپارہ سے تعلق رکھنے والے علی سدپارہ نے پاکستان کو بڑے اعزازات سے نوازا۔ پاکستان میں کوہِ پیمائی کے تربیتی مراکز نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنا کیریئر ایک پورٹر کے طور پر شروع کیا۔1995ءسے 2003ءتک وہ کم بلندی اور بعد میں زیادہ بلندی تک سامان لے جاتے رہے۔ آپ کہیں گے کہ اس سے بہتر کیا ہوگا کہ ایک شخص کو کام کے ساتھ ساتھ تجربہ بھی مل رہا ہو لیکن یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ایک پورٹر صرف اتنی ہی اونچائی پر جاسکتا ہے جتنی اونچائی پر جانے کی اسے ٹیم لیڈر اجازت دے۔ ہوسکتا ہے کہ لیڈر اسے چوٹی سے صرف پچاس میٹر دور ہی مزید اوپر آنے سے روک دے۔ آپ کو کیسا لگے گا اگر آپ اپنی عمر کے بہترین سال دوسروں کا سامان اٹھانے اور ٹیم لیڈر کی جانب سے اجازت کے انتظار میں گزار دیں۔ ہمارے خطے میں پورٹر قراقرم اور ہمالیہ کے سلسلے میں کوہ پیمائی کے لئے کلیدی کردار اَدا کرتے ہیں۔ شیرپا تینزنگ بھی سر ایڈمنڈ ہیلری کی طرح ہی مشہور ہے جنہوں نے پہلی مرتبہ ماو¿نٹ ایوریسٹ سر کیا تھا لیکن ہم کتنے پاکستانی پورٹروں کو جانتے ہیں؟ سوائے ان چند ایک کے جو بعد میں خود ہی کوہ¿ نورد بن گئے۔ پورٹروں کو چھوڑیئے ہم سوائے نذیر صابر‘ علی سدپارہ‘ حسن سدپارہ اور ثمینہ بیگ کے علاوہ کتنے پاکستانی کوہِ پیماو¿ں کو جانتے ہیں؟ پاکستان میں آٹھ ہزار میٹر یا اس سے اونچے پانچ پہاڑ ہیں۔ ہمیں کم از کم پانچ کوہ پیماو¿ں کے نام تو یاد ہونے چاہئیں۔ کوہِ پیمائی وہ واحد شعبہ ہے جہاں پاکستان کی نمائندگی صرف گلگت بلتستان کررہا ہے۔ یہ پہاڑ اور کوہ پیمائی صرف اسی وقت خبروں کی زینت بنتی ہے جب یا تو 2013ءکے نانگا بربت کے بیس کیمپ پر ہونے والے دہشت گرد حملے جیسا کوئی واقعہ ہو یا پھر کوئی حادثہ ہوجائے جو عموماً ہوتے رہتے ہیں۔ ان حادثات کی خبر بھی ایک خاص انداز میں بنتی ہے جس میں ریسکیو آپریشن کو سراہا جاتا ہے اور اس بات کو بھلا دیا جاتا ہے کہ کوہ پیمائی کی جانب سے اجازت لیتے وقت ان ریسکیو آپریشن کےلئے بھی پیشگی ادائیگی کی گئی ہوتی ہے۔ ریسکیو میں درپیش خطرات اپنی جگہ لیکن ہمت کبھی بھی پیشہ وارانہ تربیت کا بدل نہیں ہوسکتی۔ سلوانیا سے تعلق رکھنے والے ایک کوہ پیما ٹوماز ہمار کو اگست میں پاک فوج کے ہیلی کاپٹر نے نانگا پربت سے ریسکیو کیا تھا۔ وہ اس وقت سکریو کی مدد سے پہاڑ سے بندھے ہوئے تھے اور برف کی وجہ سے وہ اسکریو کھل نہیں رہے تھے۔ اگر وہ اسکریو ٹوٹتے نہیں تو ہیلی کاپٹر پہاڑ سے ٹکرا جاتا۔ ٹریکنگ اور کوہ پیمائی جیسی ایڈوینچر سیاحت ملک کےلئے کثیر آمدن کا باعث تو بن سکتی ہے لیکن پاکستان کو دریاو¿ں‘ پہاڑوں‘ ساحلوں اور صحراو¿ں کی سرزمین کے طور تشہیر کرنا کافی نہیں ہے۔ غیر ملکی سیاحوں کےلئے انفرا اسٹرکچر اور تربیت یافتہ افرادی قوت دونوں ہی ضروری ہیں۔ پھر سیاحوں کی آمد کو ریگولیٹ کرنا بھی ضروری ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: شہزاد شرجیل۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)