زراعت: نمکین آبپاشی

سندھ کے میدانی صحرائی علاقوں میں کاشتکاری کےلئے زمین تو موجود ہے لیکن آبپاشی کے لئے میٹھا پانی دستیاب نہیں لیکن بیرون ملک سے زرعی تعلیم حاصل کرکے واپس آئے ضلع ٹھٹہ کے تعلقہ ٹنڈو حافظ شاہ کے ایک مقامی کاشتکار نے ایسے حالات زراعت کی ہے‘ جس میں کاشتکاری عملاً ممکن نہیں۔ اُن کے پاس کل 450ایکڑ زمین میں سے صرف 300ایکڑ ہی قابلِ کاشت ہے۔ باقی ڈیڑھ سو ایکڑز ناقابلِ کاشت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اِس علاقے میں موجود پانی وقت کے ساتھ پانی کھارا ہو رہا ہے۔ پانی میں موجود نمکیات کو ناپنے کا پیمانہ ٹی ڈی ایس یعنی ٹوٹل ڈیزالو سالڈز ہے اور اِس پیمانے سے پانی کی کثافت جو کہ ٹی ڈی ایس پندرہ سو سے زیادہ ہے کے ذریعے کپاس اُگائی گئی ہے۔ اس سے پہلے قبل کھاڑے پانی سے محسن رضا گوار اور لیموں بھی اُگانے کے تجربات کر چکے ہیں لیکن اِس مرتبہ اُنہوں نے کپاس‘ گندم اور فالسے جیسی موسمی فصلیں اُگائی ہیں جو اپنی جگہ انقلابی اقدام ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ٹھٹہ میں میٹھے پانی کی قلت کی وجہ سے کسان کاشتکاری کےلئے زمینی پانی استعمال کرتے ہیں۔ جن کے بقول جب مون سون (بارشوں کا موسم) شروع ہوتا ہے تو زمینی پانی کا ٹی ڈی ایس بھی ٹھیک ہونا شروع ہوجاتا ہے لیکن اِس زمینی پانی کا استعمال بہتر انتخاب نہیں رہا۔ زمینی پانی کا کھارا ہونا سندھ میں زراعت کے لئے چیلنج ہے۔ سندھ کے عوام تعلیم و صحت کی سہولیات کے فقدان اور بجلی کی عدم فراہمی جیسے مسائل سے پہلے ہی دوچار ہیں لیکن زمین اور زمینی پانی کا کھارا ہونا ان کےلئے سب سے بڑی مشکل ہے کیونکہ ان میں سے اکثر کا اِنحصار زراعت پر ہی ہے۔سندھ کی زراعت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں سطح سمندر میں ہونے والے اضافے سے زمینیں ختم ہورہی ہیں جبکہ مقامی کاشتکاروں اور غیرکاشتکاروں کی زندگیاں بھی خطرات سے دوچار ہیں۔ ضلع بدین‘ سجاول اور ٹھٹہ پر مشتمل سندھ کے ساحلی علاقوں کو درپیش یہ مسئلہ نیا نہیں لیکن پھر بھی یہ علاقہ روزگار کے مواقعوں‘ سیاحت‘ صحت کی سہولیات‘ تعلیم اور دیگر ترقیاتی ضروریات کے لحاظ سے محرومی کا شکار ہے۔ میٹھے پانی کی عدم دستیابی نے کاشتکاروں کی مشکلات میں مزید اضافہ کر رکھا ہے۔ دریائے سندھ کے قریب ڈیلٹائی علاقوں میں رہنے والے لوگ میٹھے پانی کے مناسب بہاو¿ کے بغیر گزارا کر رہے ہیں سیم اور تھور سندھ کے تقریباً تیس فیصد کھیتوں میں زراعت کے لئے بڑا مسئلہ ہے۔ آبپاشی نظام کی کارکردگی خاطر خواہ نہیں۔ آبپاشی کے پانی کے بہاو¿ میں آنے والی رکاوٹوں اور بیراجوں کے بننے سے دریا میں پانی کا بہاو¿ کم ہوگیا ہے اور کھارے پانی کو دریا میں ڈالنے سے دریا کے پانی میں نمکیات کا اضافہ ہورہا ہے۔ خشک موسم میں کوٹری بیراج سے نیچے پانی کا بہاو¿ اکثر خطرناک حد تک کم ہوجاتا ہے جبکہ بحیرہ¿ عرب میں پانی کا بہاو¿ ماحولیاتی صفائی کےلئے ضروری سطح سے کم ہوجاتا ہے۔ ساحلی علاقوں میں قابلِ کاشت زمینیں یا تو سمندر کا حصہ بن گئی ہیں یا تھور زدہ ہوگئی ہیں۔ وہاں زمین کی سطح پر نمک نظر آنے لگا ہے جس کی وجہ سے وہ زمینیں ناقابلِ کاشت ہوگئی ہیں۔ جب دریائے سندھ یہاں کے کھیتوں کو سیراب کرتا تھا‘ اس وقت پانی کے بہاو¿ میں پوری ساحلی پٹی کے لئے بہت فائدے تھے۔ پینے کے پانی کے علاوہ کاشتکاری کے لئے میٹھا پانی وافر مقدار میں میسر ہوتا تھا لیکن افسوس کہ اب حالات تبدیل ہیں۔ نہروں اور پانی کی تقسیم کے نیٹ ورک سے رسنے والا پانی اور آبپاشی کا اضافی پانی بھی زمینی پانی کی سطح میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس وقت تو زیادہ ٹی ڈی ایس والے آبپاشی کے پانی کا استعمال تھور کا ایک بڑا سبب بنا ہوا ہے کیونکہ اس پانی کے بھاپ بن کر اڑ جانے کے بعد اس میں موجود نمکیات زمین کی سطح پر ہی رہ جاتی ہیں۔ پاکستان میں زمینوں کے بنجر ہونے کے عمل میں یہاں کی تھور زدہ زمین بھی شامل ہے جس سے تقریباً تریسٹھ لاکھ ہیکٹر زمین متاثر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نمکین پانی سے کاشتکاری کرنا کاشتکاروں‘ زمینداروں اور خود حکومت کےلئے بھی ایک موقع اور چیلنج ہے۔ اگر اسے باضابطہ شکل دی جائے تو یہ ملک اور خاص طور پر سندھ کی ساحلی پٹی اور غربت زدہ اور میٹھے پانی کی قلت کا شکار تھر جیسے علاقوں میں فصلوں کی کاشت کا مو¿ثر ذریعہ بن سکتا ہے لیکن تاحال کسی حکومتی محکمے اور تنظیم نے مقامی کاشتکاروں کی رہنمائی اور پانی کی قلت کو نمکین پانی سے دور کرنے کے بارے میں نہیں بتایا۔ کھارے پانی سے آبپاشی ممکن ہے لیکن اِس موجود حل پر عدم توجہی حیران کن ہے کیونکہ ایسا صرف پاکستان میں اور پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں کھارے پانی کا استعمال کیا جاتاہے۔ آسٹریلیا سمیت مختلف ممالک میں اس کا استعمال بڑے پیمانے پر ہورہا ہے۔ اگر بدین اور ٹھٹہ میں بھی نمکین پانی سے اور تھور زدہ زمینوں پر کاشتکاری کی جائے تو ان شہروں کی آمدنی یقینا بڑھے گی۔ سندھ کے عوام کی نجات تھور زدہ زمین کی بحالی میں ہی ہے جو مختلف مکینیکل اور حیاتیاتی طریقوں سے ممکن ہے۔ ہائیڈرولوجی اور آبی وسائل کے ماہرین اسے واحد راستہ قرار دیتے ہیں اور اس کا پائیدار حل یہی ہے کہ کاشتکاری کے پرانے طریقوں میں جدید دور کے مطابق تبدیلی لائی جائے جو ایک طویل عرصے تک استحکام اور پائیداری کی ضمانت دیتے ہیں۔سال 2015ءمیں اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو اینڈ ڈی پی) نے ’سیلین ایگریکلچر اینڈ کراپس ان سندھ‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ تھور زدہ زمین کا حل ’ہیلوفائٹس‘ میں پوشیدہ ہے۔ ہیلوفائٹ ایک خاص قسم کا پودہ ہوتا ہے جو نمکین پانی میں اُگ جاتا ہے۔ یہ اپنی جڑوں کے ذریعے یا نمک کے چھڑکاو¿ کے ذریعے نمکین پانی تک پہنچتا ہے اور مینگروز کے دلدل اور ساحلوں پر اُگ سکتا ہے‘بھارت کے ساحلی علاقوں میں سمندری پودے کی ایک قسم انڈین سالٹورٹ اگائی جاتی ہے جس کے پتوں کو ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسرائیل میں بھی کھارے پانی کا استعمال پیاز‘ ٹماٹر‘ خربوزے اور دیگر پھل اور سبزی اُگانے کےلئے کیا جاتا ہے۔ سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح اور کوٹری بیراج سے میٹھے پانی کے بہاو¿ میں کمی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ساحلی علاقوں میں موسمیاتی تغیر کے حساب سے کاشتکاری کی جائے‘ جس کے لئے نمکین پانی اور تھور زدہ زمین میں اُگنے والی فصلوں اور کاشت کے طریقہ¿ کار کا انتخاب کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ مچھلی اور جھینگے کی فارمنگ کے شعبے کو اس کی اہلیت کے مطابق استعمال نہیں کیا جارہا۔ حکومت اور عطیات دینے والوں کو زمین کے بنجر ہونے سے نمٹنے کےلئے جدید طریقوں پر غور کرنا چاہئے۔(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: فرقان حیدر شیخ۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)