سفارتکاری فعال‘ مستعد اور کامل ہونی چاہئے۔ اِن ذمہ داریوں سے آگاہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک مرتبہ پھر خبردار کیا ہے کہ ”بھارت پاکستان پر حملے (سرجیکل سٹرائیک) کی تیاری کر رہا ہے۔“ اگرچہ وزیرِ خارجہ نے پہلی مرتبہ بھارت کے جارحانہ عزائم کے حوالے سے خبردار نہیں کیا لیکن متحدہ عرب امارات کے دورے کے دوران ذرائع ابلاغ میں اس معاملے پر بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ کا انداز واقعی تشویشناک تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت اپنے اتحادیوں سے اس قسم کے اقدام کی ’منظوری‘ کا منتظر ہے یقینا یہ بہت سنجیدہ صورتحال ہے۔ بھارت کے جنگی عزائم کو دیکھتے ہوئے اس کی جانب سے کسی فوجی مہم جوئی کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا ‘ گزشتہ عرصے میں بھارت نے سرجیکل سٹرائیک کی اصطلاح پڑوسی ممالک میں فوجی کاروائیوں کو جواز فراہم کرنے کےلئے استعمال کیا تھی۔ 2016ءمیں بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر میں اُڑی فوجی کیمپ پر حملے کے بعد بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے لائن آف کنٹرول کے پار ایک فوجی کاروائی کی ہے۔ پاکستان اس دعوے کی نفی کرچکا ہے۔2019ءمیں بھارتی فضائیہ کی جانب سے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی بھی بھارتیوں کے لئے ہزیمت کا باعث بنی۔ 1971ءکی جنگ کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ بھارتی جنگی طیارے پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہوئے۔ یہ بات درست ہے کہ بین الاقوامی برادری کو بھارت کے جارحانہ عزائم سے خبردار کرنا ضروری ہے لیکن اس کےلئے ہمیں سفارتی محاذ پر متحرک رہنے کے ساتھ اپنا مو¿قف دوسروں تک پہنچانے کےلئے اپنی صلاحیت میں بھی اضافہ کرنا ہوگا۔ بھارت کے وزیراعظم کے جارحانہ عزائم پر کسی کو شک نہیں۔ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی جارحیت میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے نتیجے میں مقامی آبادی کا جانی اور مالی نقصان بھی ہورہا ہے۔ گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے مبصر مشن کی گاڑی بھی بھارتی جارحیت کی زد میں آئی۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے بھارت کی جانب سے حملے کی منصوبہ بندی کی ٹھوس اور قابل اعتماد معلومات حاصل کرلی ہیں۔ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں جاری کشیدگی پر قابو پانے میں ناکام ہوگئی ہے لیکن اپنی ناکامی کو چھپانے کےلئے سرحد پار سے جنگجوو¿ں کے داخل ہونے کا جھوٹا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ یہ ایک ایسی چال ہے جسے بھارت ایک عرصے سے اپنی فوجی قوت میں اضافے کے جواز کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کے اضافے کو مودی کی جانب سے کسی ممکنہ فوجی کاروائی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ دوسری جانب بلوچستان میں بھی بھارت کی سرپرستی میں ہونے والی کاروائیوں میں تیزی آگئی ہے۔ گزشتہ ماہ پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی برادری کو ایک (ثبوتوں پر مشتمل) دستاویز دی گئی تھی۔ پاکستان کا مو¿قف تھا کہ مذکورہ دستاویز میں پاکستانی سرزمین پر بھارتی سرپرستی میں کام کرنے والے دہشت گردوں کے حوالے سے ثبوت موجود تھے۔ ماضی میں بھی پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائیوں کا الزام بھارت پر عائد کیا جاتا تھا لیکن اس بار مخصوص دہشت گردانہ کاروائیوں‘ شدت پسند گروہوں اور ان کے سربراہوں کے بارے میں حاصل شدہ آڈیو ریکارڈنگ اور دستاویزات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ بھارت پاکستان کے اندر کاروائیوں میں مصروف ہے۔ پاکستان کے اندر بھارتی سرپرستی میں جاری دہشت گردانہ کاروائیاں دراصل بھارتی مشیر قومی سلامتی اجیت دوول کی اس حکمت ِعملی کا حصہ ہیں جسے آفینسیو ڈیفینس (جارحانہ دفاع) کہا جاتا ہے۔ اس حکمت ِعملی کے تحت جنگ کو دشمن ملک کے اندر لڑا جاتا ہے لیکن بھارت کی جانب سے پاکستان میں کسی قسم کی فوجی مداخلت بھارتی وزیرِاعظم کےلئے بہت بڑا رسک ہوگا۔ اس قسم کی مہم جوئی بے قابو ہوکر کسی بڑی جنگ کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ مودی کے عزائم کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہے کہ بھارت سفارتی سطح پر اس قسم کی مہم جوئی کا متحمل ہوسکتا ہے لیکن یہ بات تسلیم کرنا مشکل ہے کہ اس قسم کی جارحیت پر دنیا توجہ نہیں دے گی۔ گزشتہ سال فروری میں بھارت کی جانب سے کی جانے والی ناکام مہم جوئی دراصل جوہری حد (وہ حد جس کے بعد کوئی ملک جوہری ہتھیار استعمال کرسکتا ہے) کو جانچنے کی کوشش تھی۔ بھارت ایک ایسی پالیسی پر کاربند ہے جسے (کشیدگی میں) ’عمودی اور افقی‘ اِضافہ کہا جاتا ہے۔ اس پالیسی کا مقصد پاکستان کی جانب سے جوہری حد کے اندر رہتے ہوئے کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کی صلاحیت کو جانچنا ہے لیکن پاکستان کی جانب سے منہ توڑ جواب نے مودی کی حکمت عملی پر سوالیہ نشان لگا دیئے ہیں۔ مودی کی جانب سے پاکستان کے خلاف جارحیت میں اضافے کے پیچھے مقامی سیاست کا بھی عمل دخل ہے۔ ان کے پاکستان مخالف بیانات نے ہی انہیں انتخابات جتوائے تھے اور یہ بیانات ان کے ہندو قوم پرستی کے نظریئے میں اہمیت رکھتے ہیں۔ مودی کے طرزِ عمل کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اس طرح عالمی برادری کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و بربریت سے ہٹانا چاہتے ہیں لیکن یہاں یہ سوال بھی موجود ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے بھارتی معیشت جن مشکلات کا شکار ہے تو کیا اس صورتحال میں بھارت کسی فوجی مہم جوئی کے اخراجات برداشت کرسکتا ہے؟پاکستان کے حوالے سے یہ سوال اپنی جگہ موجود (لائق توجہ) ہے کہ پاکستان کو بھارتی جنگی جنون کا جواب کس طرح دینا چاہئے۔ اس حوالے سے کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستانی فوج کسی بھی بھارتی مہم جوئی سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے لیکن بیرونی جارحیت کا مقابلہ صرف فوج کی مدد سے نہیں کیا جاسکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی سلامتی کے معاملات پر اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے۔ یہاں وزیرِ اعظم کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ اس صورتحال میں اپنا قائدانہ کردار ادا کریں۔ بھارت کی طرف سے جارحیت کے خطرے کے پیش نظر پارلیمان کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے ۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: زاہد حسین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)