بھارت میں کسانوں کے جاری احتجاج میں ہر دن شدت آ رہی ہے جبکہ حکومت کا یہ اندازہ غلط ثابت ہوا ہے کہ کسان تھک ہار کر خاموش ہو جائیں گے اور اب بھی نیو دہلی یہی سمجھنے کی غلطی کررہا ہے کہ مجوزہ قانونی تبدیلیوں سے کسانوں کی زندگی بہتر ہوگی۔ سال 2016ءمیں وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی بی جے پی نے وعدہ کیا تھا کہ 2022ءتک وہ کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کردیں گے لیکن کیا اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ وفاقی حکومت کی کوششوں سے بھارت کے دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں آئی ہیں؟بھارت کے دیہی علاقوں میں آمدنی کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق بھارت میں چالیس فیصد سے زائد لوگوں کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے۔ دیہی علاقوں میں گھریلو آمدنی سے متعلق حالیہ برسوں کے کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں لیکن دیہی آمدنی کے ایک اہم حصے زرعی اجرت سے متعلق اعداد و شمار موجود ہیں جن کے مطابق دوہزار چودہ اور دوہزاراُنیس کے درمیان ترقی کی شرح میں کمی آئی ہے‘زرعی پالیسی کے ماہرین کا خیال ہے کہ کسانوں کی آمدنی میں اضافہ نہیں ہوا ہے اور یہ ممکن ہے کہ اس میں کئی دہائیوں سے کمی واقع ہو رہی ہے اور اگر مہنگائی کو مدِنظر رکھیں تو ایک ماہ میں چند ہزار (روپے) کے اضافے سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ ماہرین زرعی اشیا و پیداواری ضروریات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور اجناس کی غیر یقینی قیمتوں کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں جن کا کسانوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حالیہ برسوں میں ملک میں کئی مقامات شدید موسم سے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ خشک سالی کی وجہ سے کسانوں کی آمدنی متاثر ہوئی ہے تو اِس منظرنامے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت حکومت کے زراعت کی ترقی سے متعلق اہداف (مقاصد) پورے ہو رہے ہیں؟ سال دوہزارسترہ میں ایک سرکاری کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق سال دوہزارپندرہ کے مقابلے میں دوہزاربائیس میں بھارتی کسانوں کی آمدنی دگنی کرنے کے لئے ہر سال قریب ساڑھے دس فیصد کی شرح سے ترقی درکار تھی لیکن یہ ترقی نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ حکومت کو کاشتکاری کے شعبے میں چھ عشاریہ اُنتالیس ارب روپے کی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت تھی مگر سرکاری اور غیرسرکاری سرمایہ کاری کے متعلق اعداد و شمار سے واضح ہے کہ اس میں کمی ہوئی ہے۔ سال 2011-12ءمیں کاشت کاری میں کی گئی سرمایہ کاری حکومت کی کل سرمایہ کاری کا صرف ساڑھے آٹھ فیصد حصہ تھی۔ یہ سال دوہزارتیرہ چودہ میں بڑھ کر آٹھ اعشاریہ چھ فیصد ہوئی لیکن اس کے بعد اس میں کمی درج ہوئی اور دوہزارپندرہ کے بعد سے یہ صرف چھ سے سات فیصد کے درمیان ہی ہے۔ دوسری طرف بھارتی کسان قرض میں ڈوب رہے ہیں۔ بھارتی کسانوں کو جن بڑے قرضوں کا سامنا ہے اور ماہرین اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ بھارتی کسانوں کو جن مشکلات سے واسطہ ہے اس میں انہیں ریلیف ملنا چاہئے۔مشکل سوال یہ ہے کہ کیا بھارت میں زرعی اصلاحات کے نئے جوزہ قوانین کسانوں کی ’موت کا پروانہ‘ ہیں؟ کسانوں نے کھیتوں سے احتجاج شروع کرتے ہوئے سڑکوں پر ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور دارالحکومت سمیت کئی بڑے شہروں کی اہم شاہراہوں پر کسان دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ وہ کسان کہ جن کا وقت کھیتی باڑی میں خرچ ہونا چاہئے تھالیکن وہ سراپا احتجاج بنے (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر انورام کرشن۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)