متعلقہ ‘ غیرمتعلقہ مسائل

پہلا عمومی مسئلہ: کیا پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی (بھی) مستعفی ہوں گے؟دوسرا عمومی مسئلہ: کیا ’پی ڈی ایم‘ حسب اعلان اسلام آباد کی طرف ’لانگ مارچ‘ کرے گی؟ تیسرا عمومی مسئلہ: کیا ’پی ڈی ایم‘ میں شامل گیارہ سیاسی جماعتیں (بطور احتجاجی تحریک) متحد رہ پائیں گی؟پہلا حقیقی مسئلہ: تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے کے ابتدائی عرصہ (قریب 2 برس) کے دوران آٹے کی قیمت 35 روپے سے بڑھ کر 70 روپے تک جا پہنچی ہے۔ پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں کبھی بھی آٹے کی قیمت میں اِس قدر (100 فیصد) اضافہ محض 2 برس جیسے مختصر دورانئے کے دوران نہیں ہوا۔ یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ آٹے کی قیمت میں 100 فیصد اضافے کو محض مہنگائی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا بلکہ آٹے کی قیمت میں اِس غیرمعمولی اضافے کی 2 وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلا آٹے کی ترسیل میں تعطل پیدا ہوا جس کی وجہ سے قلت پیدا ہوئی اور مانگ بڑھنے کے باعث قیمتیں بڑھ گئیں۔ دوسرا آٹے کا کاروبار کرنے والوں نے اِس کی تقسیم و فراہمی کے نظام کی نگرانی کرنے والے محکموں اور فیصلہ سازوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا جس کی وجہ سے آٹے کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح تک جا پہنچی‘ جو پاکستان کی ایک بڑی آبادی کی قوت خرید سے باہر یا اُس پر ناقابل برداشت بوجھ ہے۔ یہ محرک بھی خارج از امکان نہیں کہ بدانتظامی اور بدعنوانی دونوں ہی کی وجہ سے آٹے کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔دوسرا حقیقی مسئلہ: قریب 2 سال کے عرصے میں چینی کی قیمت 55 روپے فی کلوگرام سے بڑھ کر 90روپے فی کلوگرام ہو چکی ہے جو کہ 60فیصد اضافہ ہے اور آٹے کی طرح چینی کی قیمت بھی پاکستان کی 73 سالہ تاریخ کے دوران کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ چینی کی قیمت میں 2 سال کے عرصے میں اِس قدر اضافہ ہوا ہو۔ یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ چینی کی قیمت میں ساٹھ فیصد اضافے کو محض مہنگائی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا بلکہ اِس غیرمعمولی اضافے کی 2 وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلا یہ کہ ترسیل میں تعطل کی وجہ سے قلت پیدا ہوئی اور مانگ بڑھنے کے باعث قیمتیں بڑھ گئیں۔ دوسرا چینی بنانے‘ اِس کی ترسیل اور فروخت کا کاروبار کرنے والوں نے چور بازاری اور اِس کی تقسیم و فراہمی کے نظام کی نگرانی کرنے والوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اِس جنس کی قیمت کو تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچا دیا۔ ذہن نشین رہے کہ ایک پاکستانی سالانہ اوسطاً 25 کلوگرام چینی استعمال کرتا ہے اِس حساب سے پاکستان کے لئے چینی کی کل ضرورت 5.6 ملین ٹن ہے اور پورا پاکستان (22 کروڑ عوام) سالانہ چینی خریدنے پر 300 ارب روپے خرچ کرتے ہیں لیکن چینی کی قیمتوں میں حالیہ دو برس کے دوران ہونےوالے اضافے کے باعث پاکستانیوں کو تین سو ارب روپے سالانہ کی بجائے پانچ سو ارب روپے سالانہ خرچ کرنا پڑے ہیں۔ یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ 200 ارب روپے کہاں گئے‘ کن کی جیبوں میں گئے اور چینی کی قیمت میں اضافہ کرنے سے مالی فائدہ کن طبقات نے اُٹھایا۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ عوام کی جیبوں پر کم سے کم 200 ارب روپے کا ڈاکہ ڈالنے والوں میں سے کسی کو گرفتار کیا گیا یا عوام سے لوٹا گیا پیسہ لیا گیا؟تیسرا حقیقی مسئلہ: گزشتہ 2 سال کے دوران بجلی کی قیمت (بشمول تمام ٹیکس) 11 روپے فی یونٹ سے 25 روپے فی یونٹ ہو چکی ہے جو پاکستان کی 73 سالہ اقتصادی تاریخ میں اِس سے قبل کبھی بھی اِس قدر اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ اِس سلسلے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ بجلی کی خریداری کے جو معاہدے نواز لیگ اور موجودہ حکومت کے دور میں ہوئے وہ بجلی کی فی یونٹ قیمت میں اضافے کا سبب نہیں بلکہ بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ فی یونٹ قیمت بڑھنے کی بنیادی وجہ ہے جو اگست 2018ءمیں 1100 ارب روپے تھا اور اب بڑھ کر 2400 ارب روپے ہو چکا ہے۔ علاوہ ازیں 250 ارب روپے کی بجلی ابھی بھی چوری ہو رہی ہے اور اِس قدر بجلی چوری روکنے کے لئے حکومت کی جانب سے خاطرخواہ اقدامات دیکھنے میں نہیں آ رہیں۔ چوتھا حقیقی مسئلہ: سرکاری ادارے قومی خزانے پر بوجھ ہیں۔ یہ سرکاری ادارے ہر سال 1800 ارب روپے کا خسارہ کر رہے ہیں۔پانچواں حقیقی مسئلہ: ہر سال چند ارب روپے کی گیس بھی چوری ہو رہی ہے اور گیس چوری کا یہ سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے۔ چھٹا حقیقی مسئلہ: پاسکو ہر سال سینکڑوں ارب خسارہ کر رہا ہے۔ساتواں حقیقی مسئلہ: قومی قرض تیزی سے بڑھ رہا ہے۔آٹھواں حقیقی مسئلہ: پاکستان میں فی کس آمدنی (قوت خرید) تیزی سے کم ہو رہی ہے اور یہ کمی تاریخ میں پہلی مرتبہ دیکھنے میں آ رہی ہے۔حزب اختلاف کی گیارہ جماعتوں پر مبنی اتحاد (پی ڈی ایم) کا یک نکاتی ہدف یہ ہے کہ تحریک انصاف کو اقتدار سے ہٹایا جائے۔ تحریک انصاف کا یک نکاتی ہدف یہ ہے کہ حزب اختلاف کو کچلا جائے۔ حزب اختلاف اور حزب اقتدار جماعتوں کا غیرمشروط ہدف یہ ہونا چاہئے کہ سیاسی استحکام لایا جائے تاکہ ملک کو درپیش حقیقی اقتصادی مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے جس کی وجہ سے عام آدمی کی معاشی حالت زوال پذیر ہے اور اُس کی قوت خرید و برداشت جواب دے رہی ہے۔ اِس مرحلہ¿ فکر پر بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر تحریک انصاف اپنی باقی ماندہ آئینی مدت مکمل کرتی ہے اور وہ اپنے طرزحکمرانی (فکر و عمل) کی اصلاح بھی نہیں کرتی تو ڈھائی برس بعد پاکستان (ملک و عوام) کی اقتصادیات کہاں کھڑی ہوگی؟ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)