جمہوریت بمقابلہ جمہوری حقوق

پاکستان کی سیاسی تاریخ عجائبات کا مجموعہ ہے جس میں احتجاج جیسے بنیادی ’جمہوری حق‘ کا استعمال کرتے ہوئے ’جمہوری نظام‘ ہی کی بنیاد و قیام کےلئے خطرہ بننے کی مثالیں موجود ہیں۔ آزادانہ جلسے ‘ جلوس حزب اختلاف سمیت ہر کسی کا حق ہے‘ حکومت پر تعمیری تنقید بھی مضبوط جمہوری نظام کی عکاس ہے تاہم آئین اور قانون کے ہوتے ہوئے اور مستحکم پارلیمنٹ کی موجودگی میں سیاسی و جمہوری فضا کو انتہا پسندی میں بدلنے کی کوشش کرنا حکومت اور حزب اختلاف دونوں کے مفاد میں ہے نہ جمہوری نظام کےلئے اِسے نیک شگون قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لئے حکومت اور حزب اختلاف دونوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے‘ ضد اور انا کے خول سے باہر آ کر ملک و قوم کے مفادات میں جمہوری قوتوں اور قومی اداروں کے مابین ”مکالمہ“ سمیت ہر آپشن پر غور کرنا چاہئے تاکہ جمہوریت کا سفر جاری رہے کیونکہ انتہا پسندی ضد اور ہٹ دھرمی کے تجربات ماضی میں کئے جا چکے ہیں جن کے باعث ہونے والے قومی و ملکی نقصانات کی تلافی کبھی نہیں ہو سکتی لہٰذا ایسے واقعات کو دہرانے سے گریز کرتے ہوئے سیاست کرنے والے جملہ پارلیمانی و غیر پارلیمانی کرداروں کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی تشکیل کا یک نکاتی ہدف تحریک انصاف حکومت کا خاتمہ تھا لیکن اِس کا پہلا نتیجہ جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) میں ٹوٹ پھوٹ کی صورت ظاہر ہوا ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سینئر رہنما مولانا شیرانی جن کی بنیادی پارٹی رکنیت ختم کر دی گئی تھی اُنہوں نے ’جے یو آئی ایف‘ کے مقابلے ’جے یو آئی پاکستان‘ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اُنتیس دسمبر کے روز ہوئی اِس غیرمعمولی پیشرفت پچیس دسمبر کے روز 4 سینیئر اراکین کی پارٹی رکنیت معطل کرنے کے بعد سامنے آئی ہے تاہم ’نئی جماعت‘ کا اعلان کرتے ہوئے مولانا شیرانی نے کہا کہ ”وہ کبھی بھی جے یو آئی ایف یا مولانا فضل الرحمان گروپ کا حصہ نہیں رہے۔ ہم ہمیشہ جمعیت علمائے اسلام کے دستور کے مطابق رکن رہے اور رہیں گے۔“ جے یو آئی ایف نے جن چار اراکین کو نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرنے پر پارٹی سے نکالا اُن میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مولانا محمد خان شیرانی اور حافظ حسین احمد جبکہ خیبر پختونخوا کے مولانا گل نصیب خان اور مولانا شجاع الملک شامل ہیں۔ ان رہنماو¿ں پر پارٹی فیصلوں‘ پالیسی‘ دستور اور منشور سے انحراف جیسے الزامات تھے‘یہ چاروں رہنما پارٹی میں اہم ترین عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور پارلیمنٹ میں بھی پارٹی کی نمائندگی کر چکے ہیں اور اپنی اپنی حیثیت میں بااثر ہیں کیونکہ یہ مدارس کا نظم و نسق بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ مولانا شیرانی سمجھتے ہیںکہ ”اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ ’صداقت اور دیانت سے خالی‘ ہے۔ مولانا شیرانی نے اپنی پریس کانفرنس میں آئندہ کے لائحہ عمل کےلئے تین نکات کا اعلان بھی کیا مولانا شیرانی خاص قسم کا مو¿قف رکھنے کی وجہ سے ہمیشہ خبروں میں رہے ہیں۔ جیسا کہ جب مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نے پرویز مشرف کے ساتھ ایک معاہدہ کیا کہ وہ ایک سال کے عرصے میں آرمی چیف کی وردی اتار کر سویلین صدر بن جائیں گے جس کے بدلے ایم ایم اے کے ارکان پارلیمنٹ میں سترہویں ترمیم کے حق میں ووٹ دیں گے تو مولانا شیرانی نے اُس پارٹی فیصلے پر تنقید کی تھی۔ مذکورہ ترمیم کے ذریعے پرویز مشرف اقتدار میں آنے کے بعد اپنے جاری کردہ ’لیگل فریم ورک‘ کو آئینی تحفظ دینے میں کامیاب ہوئے تھے۔ مولانا شیرانی نے یہ کہتے ہوئے پرویز مشرف سے ڈیل کرنے کی مخالفت کی تھی کہ اگر انہوں نے وردی اتار بھی دی تو کونسا یہ ’ایم ایم اے‘ کے کسی رہنما کو پہنا دینی ہے۔مولانا شجاع الملک کا تعلق مردان (خبیر پختونخوا) سے ہے اور آپ سابق رکن قومی اسمبلی ہیں اور بطور سیاسی کارکن سابق فوجی صدور جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں جیل بھی کاٹ چکے ہیں۔ ’جے یو آئی ایف‘ سے نکالے گئے چار اراکین میں مولانا شجاع الملک سب سے جونیئر ہیں‘ جو 1988ءمیں ’جے یو آئی ایف‘ سے وابستہ ہوئے تھے۔ بقول شجاع الملک جمعیت کے اندر اختلافات نئے نہیں بلکہ دس پندرہ سال سے چل رہے ہیں اور اس میں سب سے بڑی بحث قیادت کے طریقہ¿ انتخاب پر رہی ہے جہاں تک مولانا شیرانی کی بات ہے تو وہ پارٹی معاملات میں سخت گیر ہیں اور مولانا فضل الرحمان کی رائے سے اکثر اختلاف کرتے رہے ہیں لیکن ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اُن کے اختلاف کو جمعیت نے انتہائی سنجیدگی سے لیا ہے اور یہ سب ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جبکہ مولانا شیرانی اور دیگر تین اراکین کی جمعیت پر گرفت زیادہ مضبوط نہیں۔ جمعیت علمائے اسلام پاکستان کا قیام اعلان کی حد تک محدود ہے۔ کیا اِسے ایک سیاسی جماعت کے طور پر متعارف کروا کر ملک گیر رکنیت سازی و تنظیم سازی کی جائے گی‘ جس کے درکار افرادی سے زیادہ مالی وسائل اہمیت کے حامل ہیں‘ جن کا سردست دور دور تک نام و نشان دکھائی نہیں دے رہا البتہ تحریک انصاف کےلئے نادر موقع ہے کہ وہ ’پی ڈی ایم‘کی سب سے متحرک جماعت میں ہونے والی توڑ پھوڑ سے ایک ایسے وقت میں فائدہ اُٹھائے جبکہ ایسا کرنا پہلے سے زیادہ آسان بھی ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر عظمت خلیل۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)