پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما‘ رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیر دفاع خواجہ آصف کو ’آمدن سے زائد اثاثہ جات‘ رکھنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا نیب کا کہنا ہے کہ خواجہ آصف پر ثابت ہوتا ہے کہ اُنہوں نے بدعنوانی (کرپشن) سے اپنے اثاثہ جات میں اضافہ کیا تاہم خواجہ آصف پر کچھ بھی عدالت میں ثابت کرنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ وہ ایسے پہلے سیاستدان یا سرکاری عہدیدار نہیں جنہیں نیب کے قانون ”آمدن سے زائد اثاثہ جات“ کی رو سے کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہو بلکہ حال ہی میں ان ہی کی جماعت (مسلم لیگ نواز) کے کئی دیگر رہنماو¿ں کو بھی انہی الزامات میں گرفتار کیا گیا اور اُن میں سے کچھ کے خلاف احتساب عدالتوں میں ریفرنسیز بھی دائر کئے گئے لیکن بہت سارے الزامات تاحال ریفرنسیز تک بھی نہیں پہنچ پائے۔ پاکستان کی ریاست اور قانون سے زیادہ سیاستدان شاطر و ذہین ہیں۔ سیاستدانوں کے خلاف نیب اب تک آمدن سے زائد اثاثہ جات کے الزامات نہ تو عدالت میں ثابت کر پائی ہے اور نہ ہی مبینہ کرپشن سے کمائی جانے والی رقم برآمد کر کے سرکاری خزانے میں جمع کروائی جا سکی ہے۔ عام آدمی کو تحریک انصاف سے کڑے احتساب کی اُمید تھی جس کا وعدہ بھی کیا گیا تھا لیکن تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے کے بعد ڈھائی سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی صورتحال جوں کی توں برقرار ہے اور اب تک سابق وزیرِاعظم نواز شریف کو ایون فیلڈ کیس میں دی جانے والی سزا کے علاوہ کسی سرکاری عہدیدار یا سیاستدان کو نیب قانون کے تحت سزا نہیں ہو پائی کیا نیب چھان بین کر کے معلوم کرتا ہے کہ کسی سیاستدان کے پاس رقم کہاں سے آئی اور اُس نے کس نوعیت کی بدعنونی کی ہے؟ اگر ایسا نہیں تو کسی سرکاری عہدیدار کے پاس ایسی رقم کی موجودگی پر یہ مان لینا درست ہو گا کہ وہ رقم اس نے لازماً کرپشن سے حاصل کی ہے؟ اس حوالے سے قانون کیا کہتا ہے؟ الزامات کو عدالت میں ثابت کرنا کتنا آسان یا مشکل ہوتا ہے ۔نیب قانون کی مذکور شق کے مطابق آمدن سے زائد اثاثہ جات کی صورت گرفت میں کوئی بھی سرکاری عہدہ رکھنے والا شخص‘ اس کے بچے اور اس کے بے نامی اکاو¿نٹ آتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں قانون یہ ہے کہ اگر ایسے کسی عہدیدار کے اثاثہ جات اس کی آمدن سے زیادہ ہیں جس کے ذرائع معلوم نہیں تو یہ مان لیا جاتا ہے کہ اس نے یہ رقم کرپشن سے حاصل کی ہے۔ مذکورہ نیب قانون کے مطابق اپنے ذرائع آمدن کو ثابت کرنے کی ذمہ داری ملزم پر عائد ہوتی ہے۔ اگر کسی شخص کے اثاثہ جات ایک کروڑ روپے کے ہیں جبکہ اس کی آمدن کے ذرائع سے ملنے والی رقم ساٹھ لاکھ روپے ہے تو باقی کے چالیس لاکھ کن ذرائع سے آئے اُسے اِس بات کی وضاحت دینا ہوتی ہے۔ اگر وہ وضاحت نہیں دے سکتا تو قانون کے مطابق یہ مان لیا جائے گا کہ اُس نے یہ رقم کرپشن سے کمائی ہے۔ نیب کے قانون میں ذرائع آمدن کی وضاحت کے ساتھ ایک لفظ ڈالا گیا یعنی ’ریزن ایبل‘ یا موزوں وضاحت۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک شخص کے اثاثے ایک کروڑ روپے ہیں لیکن ان میں سے تیس لاکھ روپے کے ذرائع معلوم نہیں اور ملزم وضاحت میں تقریباً اٹھائیس سے اُنتیس لاکھ کی وضاحت دے دیتا ہے تو اسے موزوں تصور کیا جائے گا۔ یہ لفظ نہ ہو تو اگر وہ دس روپے کی وضاحت نہیں دے پایا تو اسے وہی سزا ملے گی جو زیادہ سے زیادہ چودہ برس قید اور دس سال کے لئے سرکاری عہدے سے نااہلی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا نیب ملزم کی طرف سے دی جانے والی وضاحت کی چھان بین کی جاتی ہے؟ خواجہ آصف کے مقدمے میں نیب نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سابق وزیرِ دفاع کی جانب سے دی جانے والی متحدہ عرب امارات کی کمپنی میں نوکری والی وضاحت مبینہ طور پر غلط تھی۔ نیب کے مطابق ’جس دور میں وہ وہاں ملازمت ظاہر کر رہے ہیں ان دنوں میں وہ پاکستان میں موجود تھے۔‘ نیب نے مزید الزام عائد کیا کہ خواجہ آصف نے یہ نوکری محض منی لانڈرنگ کے لئے ظاہر کی تھی اور اب نیب کو عدالت میں اس کی وضاحت کرنا ہو گی کیونکہ نیب کے قانون میں بارِ ثبوت ملزم پر ہوتا ہے تو اس کے خلاف ریفرنس میں یہ نکتہ ڈال دیا جاتا ہے کہ اس کی وضاحت مبینہ طور پر غلط ہے اور پھر عدالت پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ اس پر فیصلہ کرے۔ عدالت میں اس نکتے پر دونوں اطراف کے وکیل جوڑ توڑ میں لگے رہتے ہیں اور مقدمہ التوا میں چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے کسی فیصلے پر پہنچے بغیر ملزم کی ضمانت ہو جاتی ہے (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر رحمت اللہ۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)