سرمایہ دارانہ نظام کی گرفت

کورونا وبا کے باعث اقتصادی‘ معاشی‘ سماجی اور معاشرتی بحرانوں سے گزرنے والی دنیا کےلئے نیا عیسوی سال پیغام لایا ہے کہ عالمی مسائل چاہے وہ وبا کی صورت ہوں یا بھوک و افلاس غربت اور بدعنوانی (کرپشن) کی شکل میں‘ اِن سبھی کا پائیدار و کافی حل صرف اور صرف ایک ہی صورت برآمد ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا متحد ہو جائے۔ سرمایہ دار ممالک ترقی پذیر اور غریب دنیا کو سہارا دیں یعنی دنیا کو الگ الگ ممالک کی صورت میں نہیں بلکہ ایک کرہ¿ ارض کی شکل میں دیکھا جائے جس پر رہنے والی سبھی مخلوقات کا یکساں حق ہے۔ کورونا وبا نے ثابت کیا ہے کہ اگر کسی غریب ملک میں کوئی وبا پھوٹتی ہے تو اُس کے پوری دنیا تک پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا بالکل اِسی طرح سرمایہ دار ممالک کہ جہاں سرمایہ دارانہ نظام کی گرفت مضبوط ہے اور جہاں صنعتی انقلاب کے ذریعے عوام کی قوت خرید بڑھا دی گئی ہے۔ ریاستیں فلاحی کردار ادا کر رہی ہیں اور دنیا کے سب سے زیادہ سرمایہ دار لوگ ترقی یافتہ کہلانے والی دنیا ہی میں رہتے ہیں لیکن آج کی تاریخ میں ترقی ہر پہلو سے ناکافی ثابت ہوئی ہے اور کورونا وبا نے ایک ایسی نئی دنیا کے تصور و ضرورت کو پیش کیا ہے جس میں انسان انسانوں کے کام آئیں اور سرمائے کو انسانوں کے مقابلے زیادہ اہمیت نہ دی جائے۔کورونا معلوم انسانی تاریخ کی سب سے خطرناک وبا ہے جس نے انسانی معاشروں کی ضروریات اور مستقبل کے تقاضوں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ اِس صورتحال میں دنیا کے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو کورونا وبا سے شکست تسلیم کر لے جس کی ہر چند ماہ بعد ایک نئی قسم سامنے آ رہی ہے یا پھر مل کر اِس وبا سے بچاو¿ اور علاج کی حکمت عملی وضع کرے کیونکہ تن تنہا نہ تو مقابلہ ممکن ہے اور نہ ہی کسی بھی قسم کا علاج کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ انسانی معاشروں کو جن جن چیزوں پر ترقی کا گمان اور فخر تھا وہ سبھی ریت کے ٹیلے کی طرح ناپائیدار ثابت ہوئی ہیں۔ سبق آموز ہے کہ انسانوں کی ضرورت سرمایہ نہیں بلکہ انسانیت پر مبنی جذبات ہیں لیکن افسوس ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے انسانوں حقیقی خوشیوں سے محروم کر دیا ہے اِس پوری صورتحال میں سب سے زیادہ استحصال مزدور طبقے کا ہو رہا ہے جو صرف پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک ہی کا نہیں بلکہ ترقی یافتہ مغربی دنیا کا بھی مسئلہ ہے۔ سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام کا مسئلہ یہ ہوتاہے کہ اِس کے جسم میں دل نہیں ہوتا۔ اِس کے جذبات نہیں ہوتے۔ اِس اقتصادی نظام اور سوچ کے ساتھ قائم چھوٹے بڑے اداروں کو جب یہ معلوم ہوا کہ روزگار کے مواقع کم ہو گئے ہیں اور بڑی تعداد میں مزدور بیروزگار ہیں تو اُنہوں نے زیادہ کام کے عوض کم اُجرت دینا شروع کی اور لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں‘ مقام افسوس یہ بھی ہے کہ وہ صنعتیں جن کا پہیہ مزدوروں کے خون پسینے سے چلتا تھا لیکن جب کورونا وبا کے سبب صنعتی سرگرمیاں محدود کرنا پڑیں تو اُن مزدوروں کی ضروریات اور معاشی مسائل کے بارے میں نہیں سوچا گیا حالانکہ یہ بات ممکن تھی کہ مزدوروں (لیبر فورس) کے حقوق و مستقبل کا تحفظ کیا جاتا۔ بغور دیکھا جائے تو سرمایہ دارانہ نظام کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے اور اِس نظام پر پڑنے والی قبل ازیں ضربوں کے اثرات بھی تاحال محسوس کئے جا رہے ہیں۔ سال 1989ءمیں سوویت یونین کے ٹکڑے ہونا اور 2008ءکی عالمی کساد بازاری جبکہ 2019ءسے جاری کورونا وبا نے سرمایہ دارانہ نظام کی بے رحمی کو عیاں اور اِس کی گرفت کو کمزور کیا ہے اور اب سرمایہ دارانہ نظام اپنا وجود تو رکھتا ہے لیکن اِس کی بقا خطرے میں ہے اور اِس کی ترقی (مضبوطی) کا عمل رک چکا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: مشرف زیدی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)