مسلمان ممالک کے ایک دوسرے سے فاصلوں کو ختم کئے بغیر مسلم دنیا کے وسائل یکجا نہیں ہو سکتے۔ اِس بنیادی تصور کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب اِس خبر کو پڑھا جاتا ہے کہ سعودی عرب میں ہونے والے خلیج تعاون کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے قطر کے امیر تمیم بن حماد التھانی اپنے ملک کے وفد کی سربراہی کریں گے۔ تو اُمید پیدا ہوتی ہے کہ مسلم اُمہ کا تصور عملی جامہ پہننے کے قریب ہے۔ ذہن نشین رہے کہ سعودی عرب اور قطر کے مابین ساڑھے تین برس قبل منقطع ہونے والے تعلقات کی بحالی کے سلسلے میں اِس پیشرفت کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ قطر کی آفیشل نیوز ایجنسی کی جانب سے سوشل میڈیا (ٹوئیٹر) کے ذریعے خبر دی گئی ہے کہ ”قطر کے امیر ایک ریاستی وفد کی سربراہی کریں گے جو پانچ جنوری سے خلیج تعاون کونسل کی سپریم کونسل کے اکتالیسویں اجلاس میں شرکت کرے گا۔“ یہ اعلان قطر کے وزیر خارجہ کی جانب سے کئے گئے بیان کے بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے سعودی عرب کے ساتھ قطر کی زمینی‘ فضائی اور بحری سرحدیں دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا تھا۔ قطر کے وزیر خارجہ نے یہ بھی بتایا تھا کہ خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک سعودی عرب میں آج سے شروع ہونے والے اجلاس کے دوران قطر کا بائیکاٹ باقاعدہ ختم کرنے کی سٹیٹمنٹ پر بھی دستخط کریں گے۔ قبل ازیں کویت نے اعلان کیا تھا کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ اپنی سرحدیں دوبارہ کھول رہا ہے دونوں ممالک کے درمیان طویل عرصے سے جاری تنازع کے خاتمے کی جانب اسے ایک بڑی پیش رفت قرار دیا گیا۔ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ بحرین اور مصر نے جون دوہزارسترہ میں قطر کے مبینہ طور پر دہشت گردی کی حمایت کرنے اور ایران کے ساتھ روابط رکھنے کی بنا پر اس سے تعلقات ختم کرتے ہوئے قطر کے آگے کئی مطالبات رکھے تھے۔ قطر ایک چھوٹی لیکن بہت مالدار خلیجی ریاست ہے اس نے ہمیشہ اسلامی جنگجوو¿ں کی حمایت کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔قطر پر سے پابندیاں ہٹانے میں کئی مہینوں کے صبر‘ بہت محنت سے کی گئی سفارت کاری‘ جس میں زیادہ کردار کویت کا رہا شامل رہی مگر ٹرمپ کی صدارت کی مدت کے خاتمے کا وقت قریب آتے ہی وائٹ ہاو¿س کا بھی کردار بڑھا۔ ۔ ساڑھے تین سال کی بندش قطری معیشت کو بہت مہنگی پڑی اور یہ خلیج اتحاد پر بھی ایک کاری ضرب بھی تھی۔جی سی سی ممالک میں سعودی عرب‘ کویت‘ متحدہ عرب امارات‘ قطر‘ بحرین اور عمان شامل ہیں۔ سعودی عرب کے اخبار الشرق الاوسط نے جی سی سی کے سیکرٹری جنرل نائف الہجراف کے حوالے سے لکھا کہ جی سی سی کی میٹنگ میں ممبر ممالک کے مابین اقتصادی تعاون ایجنڈے کا سب سے اہم موضوع ہو گا۔ سیکرٹری جنرل جی سی سی نے ماضی میں ہونے والے معاہدوں کا ذکر کیا جن میں خلیج کی سنگل مارکیٹ‘ کسٹم یونین‘ الیکٹرک گرِڈ کو ملانا شامل ہیں۔ جنوری میں عمان کے سلطان قابوس کی موت کے بعد یہ جی سی سی کا پہلا اجلاس ہو گا جس میں کونسل کے بانی اراکین میں سے کوئی بھی شریک نہیں ہوگا۔ تمام اشارے ایسے مل رہے ہیں کہ اس اجلاس کے انعقاد سے خطے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور اقتصادی تعاون کے ساتھ عالمی طاقتوں کے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے میں امریکہ کی واپسی بھی اس اجلاس کی اولین ترجیجات میں شامل ہو گی۔ یہ ایسا خطرہ ہے جو خطے کے تمام ممالک کےلئے یکساں ہے اور یہ اس بات کا متقاضی ہے کہ خلیجی ممالک مل کر سیاسی اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس کی اہمیت پر زور دیں کہ اس معاملے میں ہونے والی بات چیت میں انہیں بھی نمائندگی دی جائے۔ خلیجی کونسل کو درپیش پانچ بڑے چیلنجوں میں تیل کی قیمتیں‘ جغرافیائی عدم توازن‘ علاقائی عدم استحکام اور ترکی و ایران کی توسیع پسندانہ عزائم اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری شامل ہیں۔ (بشکریہ: گلف نیوز۔ تحریر: مصطفی نجیدی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)