دنیا ایک اجتماعی بحران سے گزر رہی ہے جس میں بالخصوص سال 2008ءسے 2020ءتک کا عرصہ بہت مشکل رہا ہے۔ دوہزار آٹھ میں آنے والی عالمی گراوٹ (گریٹ ریسیشن) سے کھربوں ڈالر کا نقصان ہوا اور معاشی شرح نمو بھی بہت کم ہوگئی تھی۔ اسی طرح سال دوہزاربیس میں کورونا وبا نے رہی سہی کسر نکال دی اور عالمی معاشی نظام کو ایک اور جھٹکا دیا ہے۔ اسی کے ساتھ کچھ ایسے اعداد و شمار بھی ہیں جو کسی کو بھی حیرت زدہ کردینے کے لئے کافی ہیں جیسا کہ سال دوہزارنو میں ایمازون کے بانی جیف بیزوس کی کل دولت چھ ارب اَسی کروڑ ڈالر تھی جو سال دوہزاربیس میں بڑھ کر ایک سو چوراسی ارب ڈالر ہوگئی۔ اسی طرح سال دوہزارنو میں فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کی کل دولت دو ارب ڈالر تھی لیکن دوہزاربیس میں وہ ایک سو تین ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ اسی عرصے کے دوران امریکہ کے چارسو امیر ترین افراد کی دولت دوہزارنو میں ایک کھرب ستائیس ارب ڈالر سے بڑھ کر دوہزاربیس میں تین کھرب بیس ارب ڈالر ہوگئی۔ ایک سوئس بینک ”یو بی ایس“ نے اپنی رپورٹ میں توجہ دلائی ہے کہ اپریل سے جولائی دوہزاربیس کے دوران جب کورونا نامی وبا کی شدت اپنے عروج پر تھی اسی عرصے کے دوران دنیا کے امیر ترین افراد کی دولت ستائیس فیصد اضافے کے ساتھ دس کھرب بیس ارب ڈالر ہوگئی۔ عالمی بینک کے اندازے کے مطابق اسی عرصے میں اُنیس سو اٹھانوے کے بعد پہلی مرتبہ اس قدر تیزی سے انتہائی غربت کی شرح میں اضافہ ہوگا کہ تقریباً گیارہ کروڑ مزید افراد اس میں شامل ہوجائیں گے۔ مزید برآں، 1970ءکی دہائی کے بعد سے عالمی آمدنی میں مزدوروں کا حصہ بھی کم سے کم ہوتا جارہا ہے اگرچہ اس عالمی سرمایہ دارانہ نظام نے انسانیت کی ترقی کےلئے بے مثال کام کئے ہیں لیکن یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس کی بنیاد میں کوئی ایسی چیز ضرور موجود ہے جو درست نہیں ہے۔ اگر آمدن اور دولت کے دستیاب ریکارڈ کو دیکھا جائے تو اس وقت آمدن کی تقسیم سب سے زیادہ غیر منصفانہ ہے۔ تاریخی طور پر عالمی وبائیں توازن کا باعث بنتی ہیں یعنی وہ امیر اور غریب کے درمیان دولت کے فرق کو کم کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر قرون وسطیٰ میں یورپ کو تباہ کردینے والا طاعون یا بلیک ڈیتھ آمدنی میں موجود عدم مساوات کو کم کرنے کا باعث بنا لیکن آج کورونا جیسی وبا بھی اس فرق کو کم نہ کرسکی۔ یہاں تک کہ پوپ فرانسس نے بھی ’بے عیب سرمایہ دارانہ نظام‘ کے ’نئے مظالم‘ اور ’پیسے کی پرستش‘ کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے معاشی عدم مساوات‘ بے روزگاری اور بدحالی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تو آخر ایسا کیا ہوا کہ جس نظام نے صدیوں تک عالمی معیشت کےلئے عمدگی سے کام کیا‘ اس نے وال اسٹریٹ اور مین اسٹریٹ یعنی ایک فیصد اور ننانوے فیصد کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا ہے؟ اس کا جواب سیدھا سادہ نہیں بلکہ اس کی تلاش کےلئے تاریخی عوامل کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ خوش قسمتی سے ہمارے پاس اب اتنی تحقیق اور تحریری مواد موجود ہے کہ ہم اس نظام کے ارتقا کا خاکہ بنا سکتے ہیں۔ ابتدائی تہذیبوں سے لے کر بعد کے ہزاروں سالوں تک تجارتی سرمایہ داری نے ہی معیشتوں کا پہیہ چلایا ہے۔ تہذیبوں اور سلطنتوں کے فروغ کے ساتھ تجارت میں بھی اضافہ ہوا اور اس تجارت کو جاری رکھنے کےلئے نت نئے خیالات نے جنم لیا۔ مثال کے طور پر یونان کی شہری ریاستوں نے اپنے مال بردار بحری جہازوں کی انشورنس کروائی ہوئی تھی۔ اُنیسویں صدی کے آس پاس چین کے مختلف علاقوں میں تجارت میں سہولت کےلئے کاغذ کی کرنسی استعمال ہونے لگی۔ اسی طرح ’صنعتی سرمایہ داری‘ کے ابتدائی شواہد ایمسٹرڈیم جیسے علاقوں میں قائم ہونے والے اسٹاک ایکس چینج سے ملتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس سفر میں کئی اتار چڑھاو¿ آئے پریشان کن حقیقت یہ بھی ہے کہ آمدن کی اکثریت بہت مختصر اقلیت کے پاس جاتی ہے۔ چیزوں کو تناظر میں رکھنے کےلئے یہ سمجھئے کہ ماضی میں رومن سلطنت کا خاتمہ بڑے پیمانے پر معاشی گراوٹ کا باعث بنا تھا لیکن اکیسویں صدی میں نیویارک کے ایک کونے میں صرف دو اداروں کا خاتمہ ہی ایک ایسی معاشی گراوٹ کے آغاز کا سبب بنا جس کی وجہ سے عالمی دولت اور جی ڈی پی میں کھربوں ڈالر کا نقصان ہوا بلکہ بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا۔ تو کیا دنیا کے پاس سرمایہ دارانہ نظام کا کوئی متبادل موجود ہے؟ مجوزہ آپشنز میں غیر منطقی متبادل بھی ہیں اور منطقی بھی۔ سب سے زیادہ غیر منطقی متبادل تو یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کو ہی ختم کردیا جائے۔ اس قسم کی دلیل کے پیچھے یہ خیال ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام ایک ہی ہے لیکن درحقیقت دنیا بھر میں اس نظام کی مختلف شکلوں پر عمل ہورہا ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں امریکہ میں اس نظام کی بہت خوبصورت شکل دیکھنے کو ملتی ہے لیکن چین میں یہ سرمایہ دارانہ نظام ریاست کے ماتحت ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس دلیل میں اس حقیقت کو نظر انداز کیا گیا کہ اس نظام کے سب سے بڑے ناقد مارکس نے بھی اس نظام کے تحت چلنے والی پیداواری قوتوں کی طاقت کو تسلیم کیا ہے۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ ریاست معاشی سرگرمیوں میں اپنے کردار پر نظرثانی کرے جس کے نتیجے میں عموماً مافیا جنم لیتے ہیں‘ جس کی ایک مثال چینی مافیا ہے جو ریاست کی جانب سے دی گئی سبسڈی سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس بات کو تو تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمیں سرمایہ دارانہ نظام کے طریقہ کار کے حوالے سے مشکلات درپیش ہیں لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ جہاں تک ترقی اور خوشحالی کی بات ہے تو اس نظام سے بہتر کوئی متبادل نہیں ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: شاہد محمود۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)