ایران: جوہری عزائم اور اقدامات

 جمہوری اسلامی ایران کے حالات و واقعات معاشی اور دفاعی لحاظ سے پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کےلئے خاص اہمیت رکھتے ہیں اور اِس انتہائی اہم عالمی معاملے کے بارے میں کئی سوالات بھی جنم لیتے ہیں۔اوّل یہ کہ ایران اگر جوہری پروگرام پر معاہدے کو بحال کرنے کا خواہش مند ہے تو پھر وہ امریکہ میں نئی حکومت کے قیام سے قبل سخت اقدامات کیوں کر رہا ہے اور وہ اس سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟ دوئم یہ کہ نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن جو ایران کے جوہری پروگرام پر معاہدے کو بحال کرنے کے بارے میں بیان دے چکے ہیں ان کے لئے اس معاہدے کو بحال کرنا کیا اتنا آسان ہو گا؟ تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ اس معاہدے کو بحال کرنے میں کتنا وقت لگ سکتا ہے؟ ایران یورینیم کی افزودگی کو 20فیصد تک بڑھانے کے حالیہ اعلان سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟ ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی بڑھانے کے اعلان کے بعد امریکہ کی وزارت خارجہ نے کہا کہ یہ ایران کی طرف سے جوہری زبردستی کی پالیسی کا حصہ ہے جبکہ ایران حکومت کے ترجمان علی ربی نے ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ یورینیم کی بیس فیصد افزودگی کا کام فردو کے جوہری پلانٹ میں شروع کر دیا گیا ہے۔ نئے قانون کے تحت ایرانی صدر کو یورینیم کی افزودگی کو یقینی بنانے کا پابند کیا گیا ہے۔ صدر حسن روحانی نے یورینیم کی افزودگی کو بڑھانے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ حال ہی میں منظور ہونے والے نئے قانون کے تحت وہ اس بات کے پابند ہیں کہ وہ سالانہ کم از کم ایک سو بیس کلو بیس فیصد افزدوہ یورینیم کو ذخیرہ کرنے کو یقینی بنائیں۔ ایرانی پارلیمان نے ملک کے انتہائی اہم جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کی ہلاکت کے بعد جوہری پروگرام سے متعلق نیا قانون منظور کیا تھا۔ ایران کا الزام ہے کہ محسن فخری زادہ کو اسرائیل نے قتل کیا۔جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے ’آئی اے ای اے‘ نے ایران کی طرف سے اس بارے میں مطلع کرنے کی تصدیق کی تھی۔ ایران کے اس اعلان پر یورپی یونین چین اور دیگر کئی ملکوں کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا تھا اور ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ ایک طرف ایران کی حکومت نے یورینیم کی افزدوگی کو بڑھانے کے اعلان سے دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ انتہائی سخت معاشی پابندیوں اور بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کی طرف سے کھلی جارحیت کے باوجود اس نے گھٹنے نہیں ٹیکے ہیں۔ دوسری جانب ایران کی حکومت اور خاص طور پر وزیر خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے حالیہ بیانات میں مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھنے کے واضح اشارے بھی دیئے گئے ہیں۔ وزیر خارجہ جواد ظریف کی طرف سے ٹوئیٹر پر جاری کئے گئے پیغام میں کہا گیا کہ ایران یورینیم کی افزودگی کو بیس فیصد کی سطح پر لے جا رہا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اس کو واپس بھی لایا جا سکتا ہے۔ جواد ظریف کا یہ کہنا کہ یورینیم کی افزودگی کو واپس بھی کیا جا سکتا ہے اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ وہ پانچ بین الاقوامی طاقتوں اور اقوام متحدہ سے ہونے والے معاہدہ پر عملدرآمد کرنے کےلئے تیار ہیں بشرطیکہ ایران پر ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے لگائی جانے والی پابندیوں کو اٹھا لیا جائے۔ درحقیقت ایران اپنے جوہری پروگرام کے ذریعے سودے بازی کر رہا ہے اور ایران پرانے معاہدے کو ہی بحال کروانا چاہتا ہے اور ایران یہ کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ اسے کسی نئے مذاکرات میں الجھنا پڑے اور اس پر کوئی نئی شرائط عائد کی جائیں۔ اگر ایران کو نئے سرے سے مذاکرات کرنے پڑے تو اسے نقصان بھی ہو سکتا ہے۔سابق صدر اوباما کے دور میں 14جولائی 2015ءمیں طے ہونے والے معاہدے میں ’سن سیٹ کلاز‘ یا ایسی شقیں شامل تھیں جن کے تحت کچھ پابندی ایک معینہ مدت کےلئے تھیں جس کے بعد ایران کو جوہری پروگرام کے حوالے سے کئی سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اگر کوئی ملک یورینیم کو بیس فیصد تک افزودہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لے تو پھر اس کو نوے فیصد تک لے جانے میں زیادہ وقت درکار نہیں ہوتا۔ امریکی جریدے نیویارکر میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں یروشلم سینٹر فار پبلک افیئرز کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کے صدارت چھوڑنے کے وقت تہران جوہری ہتھیاروں میں استعمال کے قابل افزورہ یورینیم تیار کرنے سے صرف تین ماہ کی دوری پر ہو گا۔ ایران کے وزیرخارجہ جواد ظریف نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جو بائیڈن کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ بحال کرنے کے لئے تین سرکاری حکم نامے جاری کرنا ہوں گے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نومنتخب صدر جو بائیڈن کے لئے یہ کام کتنا مشکل ثابت ہو سکتا ہے لیکن اس سے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ ایران کے ساتھ معاہدہ بحال کرنے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ جو بائیڈن نے گذشتہ سال ستمبر میں امریکی چینل سی این این کے لئے ایک مضمون تحریر کیا تھا‘ جس میں ان کا کہنا تھا کہ اگر ایران معاہدے پر پوری طرح عملدر آمد شروع کر دے تو امریکہ اس معاہدے میں دوبارہ واپس آ جائے گا جو کہ مزید مذاکرات شروع کرنے کےلئے نکتہ آغاز ہو سکتا ہے۔ عالمی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ جو بائیڈن کی کوشش ہو گی کہ وہ ایران کے ساتھ معاہدے کو بحال کریں۔ اپنی انتظامیہ میں شامل کرنے کے لئے جو بائیڈن جن لوگوں کا انتخاب کر رہے ہیں ان میں بہت سے وہ لوگ ہیں جو ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ طے کرنے میں شامل رہے ہیں۔ جو بائیڈن کی انتظامیہ میں شامل ہونے والے لوگ نظریاتی طور پر تو اس بات پر متفق ہیں کہ اس معاہدے کو بحال ہونا چاہئے۔ایران اور امریکہ کے درمیان بداعتمادی کی ایک پوری تاریخ ہے جو 1953ءمیں ایران کے سابق صدر مصدق کے خلاف امریکہ خفیہ ادارے سی آئی اے کی پشت پناہی میں بغاوت سے شروع ہوتی ہے اس تلخ اور طویل تاریخ کے پیش نظر دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کی بداعتمادی کو ختم کر کے معاہدے کو بحال کرنا بھی ایک چیلنج ہو گا۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: واحد اشرف۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)