ایک دانا کا قول ہے کہ تمہارا دوست وہ ہے جو تمہارے منہ پر تمہارے عیب بیان کرے وہ شخص جو تمہارے منہ پر تمہاری تعریف کرے تو وہ تمہارا دوست نہیں کہلایا جا سکتا اگر آپ تھوڑی دیر کے لیے اپنے ذہن پر زور دے کر اس قول کی گہرائی پر غور کریں تو آپ کو اس میں چھپی ہوئی ذہانت کا اندازہ ہوجائے گا اسی ضمن میں ایک ایک کہانی سن لیجئے گا ایک مرتبہ ایک ملک کے سربراہ نے اپنے ملک کے ایک پاگل خانے کا معائنہ کرنے کا فیصلہ کیا جس طرح کہ خوشامدی افسروں کا اکثر چلن ھوتا ہے کہ وہ اپنے سے بالا افسر کی نظر کرم حاصل کرنے کیلیے اس کی شان میں زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے ھیں اس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ھیں اسی کے مطابق اس پاگل خانے کے انچارج افسر نے اس ملک کے سربراہ کے استقبال کیلئے ایک فقید المثال پروگرام بنایا یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے اکثر سینیر افسران یا حکمران اپنے ماتحت افسروں اور عملے کی زبان سے اپنے لئے قصیدے سننے کے خواہش مند ہوتے ہیں اس پاگل خانے کے انچارج افسر نے پاگل خانے میں موجود تمام پاگلوں کو یہ سمجھا دیا کہ جب مہمان خصوصی پاگل خانے کے اندر داخل ہوں تو وہ سب سربراہ مملکت زندہ باد زندہ باد کے نعرے لگائیں چناچہ جب وہ سربراہ مملکت پاگل خانے کے اندر داخل ہوا تو چاروں طرف سے سربراہ مملکت زندہ باد زندہ باد کے فلک شگاف نعرے نعرے لگنے شروع ہو گئے وہ سربراہ مملکت دل ہی دل میں اپنی ہردلعزیزی پر بڑا خوش ہوتا دکھائی دیا کہ اچانک اس کی نظر پاگل خانے کی عمارت میں کھڑے ہوئے ایک خاموش شخص پر پڑی اس نے اس خاموش کھڑے شخص سے پوچھا کہ بھائی تم کیوں خاموش اور چپ کھڑے ہو اس شخص نے سربراہ مملکت کو نہایت ادب سے کہا جناب میں یہاں کے وارڈ کا محافظ ہوں پاگل نہیں ہوں ‘آجکل تو خیر ہر طرح کے ذرائع موجود ہیں اور کسی بھی خبر کی تصدیق او ر تردید فوراً ہوجاتی ہے۔ اگر ایک طرف لاتعداد آزاد ٹیلی ویژن چینلز موجود ہیں تو دوسری طرف سوشل میڈیا نے بھی تہلکہ مچایا ہوا ہے حکمرانوں کو ہر اچھی بری خبر پڑھنے کو مل جاتی ہے اب زیادہ غلط بیانی سے کام نہیں لیا جاسکتا اور نہ ہی کوئی حکمرانوں کو گمراہ کر سکتا ہے عقلمند حکمران وہ ہوتے ہیں جو کسی ایک یا دو ذرائع کی رپورٹوں پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ وہ مختلف ذرائع سے انفارمیشن روزانہ کی بنیادوں پر حاصل کرتے رہتے ہیں تاکہ انہیں زمینی حقائق کے بارے میں جامع اور درست اطلاعات میسر ہوں۔ خیبرپختونخوا کے ایک سابق گورنر نے کھلے اور غیر مبہم الفاظ میں یہ کہہ رکھا تھا کہ وہ 'سب اچھا ہے' کی رپورٹوں پر بالکل یقین نہیں رکھتے انہیں اگر ان کی کوتائیوں یا لغزشوں پر کوئی شخص گالیاں بھی دیتا ہو تو اس گالی کو ہو بہو لفظ بلفظ اوریجنل الفاظ میں رپورٹوں میں بیان کیا جائے تاکہ انہیں پتہ چل سکے کہ ان کے بارے میں یا ان کے کسی اقدامات کے بارے میں عوام کیا سوچتے ہیں تنقید کو برداشت کرنا بہت بڑے دل گردے کا کام ہے اور تاریخ کے مطالعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حکمران کامیاب رہتا ہے کہ جس میں تنقید برداشت کرنے کا مادہ ہوتا ہے اور جو پھر اس تنقید کی روشنی میں اس خامی کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ جو اس کی تنقید کا باعث بنی ہوتی ہے۔