بھارت کی داخلی صورتحال کورونا وبا اور کسانوں کے احتجاج کے باعث مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ایسے کئی بھارتی ہیں جو شاید ہی کبھی فاشسٹ طرزِ عمل (جارحیت) کی مذمت کریں جس کے نتیجے میں معصوم اور بے گناہ لوگوں کو ہلاک کردیا جاتا ہے اور یہ سب ریاست کی سرپرستی میں ہوتا ہے لیکن یہی لوگ عوامی مظاہروں کے نتیجے میں عوامی یا نجی املاک کو پہنچنے والے حقیقی یا تصوراتی نقصان پر خوب شور مچاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک احتجاج بھارتی دارالحکومت دہلی کی سرحد پر کسانوں کی جانب سے جاری ہے۔ ایسے میں اپنے ہم وطنوں کی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے کسی کی املاک کے حوالے سے پروپیگنڈا کرنا نیوٹرون بم بنانے کے مترادف ہے۔امریکہ نے صدر جمی کارٹر کے دور میں ’نیوٹرون بم‘ بنانے پر کام کا آغاز کیا گیا تھا۔ یہ محدود جوہری (منفی) اثرات رکھنے والا ہتھیار تھا۔ اس کا مقصد مغربی یورپ میں لڑی جانے والی کسی بھی ممکنہ جنگ میں اِسے روسی ٹینکوں کے خلاف استعمال کرنا تھا۔ مذکورہ بم کو ”ٹیکٹیکل ہتھیار“ کے طور پر کئی مقامات پر نصب کیا جانا تھا اور اس بم کے نتیجے میں اس کے حلقہ اثر میں آنے والے تمام انسان اور زندگی کی تمام دیگر اقسام ختم ہوجاتیں لیکن عمارتیں قائم رہتیں جبکہ دوسری قسم کے جوہری بم میں عمارتیں بھی ملیامیٹ ہو جاتی ہیں۔ انسانی جانوں کے ضیاع اور اخلاقیات کو نظرانداز کیا جائے تو نیوٹرون بم کا منصوبہ ایک اور یورپین ریکوری پروگرام جیسے مہنگے منصوبے کی ضرورت کو ختم کرسکتا ہے۔ امریکہ نے 1945ءمیں جرمنی کی شکست کے بعد مارشل پلان کی فنڈنگ کی تھی۔ سوویت یونین نے اسے ’کیپیٹلسٹ بم‘ کا نام دیا تھا۔ بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی بارہا تاکید کرچکے ہیں کہ کسان عوامی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کسان ایسا کچھ نہیں کررہے کسان اس قانون کو اپنے مفادات کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس قانون کی وجہ سے بڑے کاروباری گروپوں کو فائدہ پہنچے گا اور ان کاروباری گروپوں میں وہ گروپ بھی شامل ہے جس کے موبائل ٹاور گرائے گئے۔ اب یہاں معاملہ سنجیدہ ہوتا جارہا ہے کیونکہ اس موبائل کمپنی نے ٹاور گرائے جانے میں اپنی حریف موبائل کمپنی کے ملوث ہونے کی بات کی ہے یعنی کسانوں نے ممکنہ طور پر ایک کارپوریٹ جنگ کو ہوا دے دی ہے۔ لیکن اس مرتبہ کسانوں کا احتجاج روکنے میں ناکامی کی وجہ سے مودی کی مایوسی صاف ظاہر ہے۔ اس مایوسی کا اظہار ان کی تقریر سے بھی ہوا۔ مودی نے ایک عوامی ریلی سے خطاب میں کہا کہ ’کسان چاہیں تو میرے پتلے کو آگ لگادیں اور اسے چوک پر جوتے ماریں لیکن انہیں عوامی املاک کو نقصان نہیں پہنچانا چاہئے۔ کسانوں کے احتجاج سے دارالحکومت کے ساتھ زمینی راستے محدود ہوگئے ہیں۔ سونے پر سہاگا یہ کہ کسانوں کو امریکہ‘ کینیڈا اور یورپ میں بھی اپنے حامی مل گئے ہیں۔ ان واقعات سے مودی کی ایک سخت گیر شخصیت پر ضرب ضرور لگی ہے لیکن ایک وقت وہ بھی تھا جب مودی بالکل مختلف زبان بولتے تھے۔ 1974ءکی ایک تحریک کے دوران طلبہ نے تشدد کے ذریعے جب شہروں کو بند کیا تو اس تحریک کو نَونرمن تحریک کہا گیا۔ مودی کی اپنی ویب سائٹ پر اُس تحریک اور اُس میں مودی کے کردار پر تحریر موجود ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ ’نَونرمن تحریک مودی کے لئے بڑے عوامی احتجاجوں سے متعلق پہلا تجربہ تھی اور اس سے سماجی مسائل پر ان کی سوچ کو وسعت ملی۔‘ وہاں یہ بھی درج ہے کہ ’اسی تحریک کے سبب 1975ءمیں مودی کو گجرات میں لوک سنگھرش سمیتی کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے ان کے سیاسی کریئر کا پہلا عہدہ بھی ملا۔‘ اب اس معاملے کو ایک سال پہلے جامعہ ملیہ کے طلبہ کے حوالے سے دیئے گئے بیان سے ملا کر پڑھئے۔ مودی نے کہا تھا کہ ’شہریت کے قانون کے خلاف پرتشدد مظاہرے بدقسمتی اور پریشانی کا سبب ہے۔ بحث‘ گفتگو اور اختلاف ِرائے جمہورت کا حصہ ہیں لیکن عوامی املاک کو نقصان پہنچانا اور عوامی زندگی میں رکاوٹ ڈالنا کبھی بھی ہمارے اخلاق کا حصہ نہیں رہا۔‘1974ءمیں ارون جیٹلی نے دہلی یونیورسٹی کے لاءکالج سے فارغ ہونے کے بعد مستقبل کی ’جے پی تحریک‘ کی حمایت کے لئے احمد آباد اور پٹنہ کا سفر کیا۔ اس تحریک میں طلبہ نے منتخب حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور پتھراو¿ کئے۔ یونیورسٹی دفاتر کو آگ لگائی گئی اور شہر بھر میں ہڑتال کی۔ ارون جیٹلی کہ جنہوں نے مودی کے وزیرِاعظم بننے میں اہم کردار ادا کیا کو مذکورہ مظاہرہ کرنے والی طلبہ تنظیموں کا قومی منتظم (کنوینیر) بنایا گیا تھا۔ یہ بات اہم ہے کہ نَونرمن تحریک کے آغاز کے اٹھارہ ماہ بعد ایمرجنسی لگ گئی۔ ایسا ہی کچھ 1975ءمیں بھی ہوا جب بہار میں وزیرِ ریلوے ایل این مشرا کی بم دھماکے میں ہلاکت ہوئی۔ بھارت کے کسانوں کو قومی تاریخ یاد ہے اور وہ جانتے ہیں کہ حکومت چاہتی ہے کہ وہ تشدد کا راستہ اختیار کریں لیکن وہ دانشمندی سے پرامن احتجاج کر رہے ہیں اور اِسی وجہ سے اُن کی کامیابی یقینی دکھائی دے رہی ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ جواد نقوی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)