وائٹ ہاو¿س حملہ: عمل اور ردعمل

 امریکہ کے سیاسی امور ’وائٹ ہاو¿س‘ کے ذریعے چلائے جاتے ہیں‘ جہاں پر ہوئے حملے کی بازگشت کئی روز بعد بھی سنائی دے رہی ہے اور کئی بین الاقومی رہنما اور بالخصوص امریکہ کے اتحادی ممالک کے سربراہوں نے چند روز قبل ’کپیٹل ہل (وائٹ ہاو¿س)‘ پر ہونے والے واقعات کو حیرت اور پریشانی سے دیکھا ہوگا۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینس سٹولٹنبرگ سب سے پہلے رد عمل دینے والوں میں شامل تھے جب انہوں نے ٹوئٹر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ”واشنگٹن ڈی سی میں حیران کن مناظر۔ ان جمہوری انتخابات کے نتائج کا احترام کرنا ضروری ہے۔“ یہ کس نے سوچا ہوگا کہ نیٹو اتحاد کے سب سے اعلیٰ افسر کی جانب سے یہ تبصرہ ایک اہم ترین اتحادی ملک کے بارے میں ہوگا۔ عمومی طور پر توقع کی جاتی ہے کہ ایسی باتیں سیکرٹری جنرل سٹو لٹنبرگ بیلاروس یا وینیزویلا کے بارے میں کہیں گے لیکن یہ واقعہ عیاں کرتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے چار سال کے بعد امریکہ کا دنیا میں کیا مقام ہے اور امریکہ نے اپنی طاقت اور اپنا اثر‘ دونوں ہی کھو دیا ہے۔ امریکہ کی وہ خصوصیات جس نے اسے دنیا بھر میں جمہوریت کی مثال بنایا تھا‘ ماند پڑ گئی ہیں اور ملک میں پیدا ہونے والا شگاف سب سے سامنے عیاں ہے۔دنیا کے تمام ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں امریکہ سے زیادہ سیاسی طور پر غیر فعال اور منقسم ملک ہے اور یہ حقیقت بہت معنی رکھتی ہے کیونکہ حالیہ برسوں میں عالمی نظام کو صدر ٹرمپ کی ’سب سے پہلے امریکہ‘ کی پالیسی سے بہت نقصان پہنچا ہے۔ آمرانہ حکمرانوں کو شہ ملی ہے۔ چین اور روس کو لگتا ہے کہ ان چار سالوں میں دنیا بھر میں ان کا اثر بڑھا ہے۔ لبرل نظام کے ادارے جیسے اقوام متحدہ‘ نیٹو وغیرہ کو کئی بحران کا سامنا ہے۔ سائبر حملے اور ’گرے زون آپریشنز‘ یعنی بھرپور جنگ چھیڑنے سے پہلے کا مرحلہ اب معمول کی بات بنتا جا رہا ہے۔ دنیا ایک وبا کے شدید بحران سے گزر رہی ہے اور ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلی کا چیلینج بھی سر پر ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں امریکہ نے اپنی ذمہ داریوں سے قطع تعلق کر لیا تھا۔ امریکہ دنیا پر اپنی اجارہ داری وسیع کرنا چاہتا ہے اور اِس مقصد کےلئے اُس کی کئی پالیسیاں مسائل حل کرنے کےساتھ ساتھ اُن کی شدت میں اضافے (بگاڑ) کا باعث بن رہی ہیں لیکن امریکی دفاعی اور سکیورٹی پالیسی اس وقت کافی بُری حالت میں ہیں۔ ہتھیاروں کے پھیلاو¿ کو روکنے والی پالیسیاں جو سرد جنگ کے بعد سے چلی آ رہی تھیں‘ اب بکھر رہی ہیں۔ امریکہ اور روس کے مابین جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے قائم معاہدے ’نیو سٹارٹ ٹریٹی‘ کو برقرار رکھنے کی آخری کوشش آنے والے امریکی صدر جو بائیڈن کے ایجنڈا کے اولین نکات میں سے ایک ہوگا۔ ہتھیاروں کے پھیلاو¿ (آرمز کنٹرول) مزید اہمیت کا حامل ہوتا جا رہا ہے بالخصوص ایسے وقت میں جب مزید تباہ کن میزائل جیسے ’ہائپر سونک میزائل‘ تیار کئے جا رہے ہیں ان معاملات میں امریکہ کی موجودگی‘ چاہے وہ ایک قائدانہ کردار میں ہی کیوں نہ ہو‘ ان مسائل کے حل لئے بے حد ضروری ہے اور یہ تمام چیزیں نو منتخب امریکی صدر بائیڈن کےلئے بڑی مشکلات کا سبب بن سکتی ہیں۔ دوسری جانب روس ہے جو کہ امریکہ کا بظاہر مقابل تو نہیں لیکن ان کےلئے ایک پریشان کن عنصر ضرور ہے۔ روس کی جانب سے گمراہ کن خبروں کا پھیلاو¿ اور ہیکنگ آپریشنز امریکہ کو متاثر کرنے کے نئے لیکن بہت مو¿ثر طریقے ہیں۔ جو بائیڈن ایک ایسے وقت میں قیادت سنبھالیں گے جب امریکی انتظامیہ کے کئی ادارے وہ کمپیوٹرز استعمال کر رہے ہیں جن تک روسی ہیکرز کی رسائی ہو گئی ہے۔ ابھی تک کسی کو نہیں معلوم کہ روسی ہیکنگ کتنی گہری ہے اور کتنی دیر تک کےلئے قائم رہے گی۔ حتیٰ کہ امریکہ کے دوست ممالک کےساتھ بھی نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ روابط آسان نہیں ہوں گے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نئے امریکی صدر کو اتحادی ممالک کے رہنماو¿ں کی جانب سے گرمجوشی سے خوش آمدید کیا جائے گا‘ بالخصوص یورپی یونین اور جی سیون ممالک میں لیکن دوسری جانب اسرائیل‘ سعودی عرب اور ترکی ہیں جو اپنی پالیسیوں کو نئی امریکی انتظامیہ کے حوالے سے موافق کر رہے ہیں تاکہ جو بائیڈن کی ٹیم سے ان کے تعلقات قائم ہوں لیکن جو بائیڈن کی صدارت میں نئی امریکی انتظامیہ کےلئے ہنی مون زیادہ عرصے تک نہیں چلے گا۔ نیٹو اتحادیوں کےساتھ تو شاید مسائل جلد حل ہو جائیں لیکن جو بائیڈن اپنے یورپی ہم منصبوں پر بھی ویسے ہی دباو¿ ڈالیں گے جو صدر ٹرمپ نے کیا تھا۔ ان کے بھی وہی مطالبات ہوں گی کہ دفاعی اخراجات میں اضافہ کیا جائے اور چین‘ روس اور ایران کے خلاف سخت پالیسیاں اختیار کی جائیں لیکن یہ نئے پالیسی اتحاد قائم کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا شاید پہلی نظر میں لگے۔ دو نکات اہم ہیں۔ امریکی جمہوریت اور امریکی معاشرے کو بہتر کرنا اور اسے انصاف پسند بنانا اور بیرون ملک ’برانڈ امریکہ‘ کی وقعت بڑھانے کےلئے نہایت ضروری ہے۔ (بشکریہ: دی گارڈین۔ تحریر: جوناتھن مارکس۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)