کورونا وبا: غریب متاثرین

وبائیں بے رحم ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عالمی وبا ء نے جہاں دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو مشکلات اور پریشانیوں کا شکار کیا ہے وہیں یہ بحران امیر ترین افراد کے لئے منافع بخش جبکہ غریبوں کے لئے وبال جان بنا ہوا ہے۔ اس وبا ء نے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں نگل لیں اور کروڑوں کو غربت کی جانب دھکیل دیا ہے تاہم گزشتہ ایک برس میں دنیا کے امیر ترین افراد کی دولت میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مذکورہ وبا ء کے آغاز سے ہی دنیا کے غریب افراد مزید غریب اور امیر مزید امیر ہوگئے ہیں۔ یہ بات تو ثابت شدہ ہے کہ یہ ہنگامی صورتحال ہر فرد پر یکساں طور سے اثر انداز نہیں ہوئی اور اس وباء نے ممالک کے مابین اور ممالک کے اندر پہلے سے موجود عدم مساوات میں اضافہ کیا ہے جس کا اعتراف اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے بھی کیا ہے اور اُن کا کہنا ہے کہ ”اگرچہ ہم سب ایک ہی سمندر میں موجود ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ کچھ لوگوں کو پرتعیش کشتیاں میسر ہیں تو کچھ لوگ تیرتے ہوئے ملبے کا سہارا لئے ہوئے ہیں۔“ یہ بات بھی درست ہے کہ امیر ممالک میں کورونا وبا ء کے اثرات زیادہ شدید ہیں لیکن وہ ممالک ان اثرات سے غریب ممالک کی نسبت جلدی باہر آجائیں گے۔ یہ عمل نہ صرف امیر اور غریب ممالک کے درمیان موجود فرق کو مزید وسیع کردے گا بلکہ اس سے عالمی امن کو بھی خطرہ ہوسکتا ہے۔ گزشتہ ماہ آکسفام نامی عالمی تنظیم نے ’دی ان ایکویلیٹی وائرس‘ کے نام سے ایک رپورٹ جاری کی جس میں وبا ء کے دوران معاشی عدم مساوات کے بارے میں کچھ چونکا دینے والے انکشافات کئے گئے۔ رپورٹ کے مطابق جس دوران لاکھوں لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو رہے تھے اور اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے تھے اس دوران امیر ترین افراد اس وبا ء سے سب سے کم متاثر ہوئے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ سال 2020ء کے دوران دنیا میں غربت کے شکار افراد کی کل تعداد میں بیس سے پچاس کروڑ کا اضافہ ہوا لیکن اس کے برخلاف عالمی معیشت میں گراوٹ کے باوجود اٹھارہ مارچ سے اکتیس دسمبر 2020ء کے دوران دنیا کے ارب پتی افراد کی دولت میں تقریباً چار کھرب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ عالمی معاشی فورم کی رپورٹ کے مطابق اسی عرصے کے دوران دنیا کے دس امیر ترین ارب پتی افراد کی دولت میں پانچ سو چالیس ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی مشترکہ دولت تقریباً بارہ کھرب ڈالر ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کی پچیس بڑی کمپنیوں نے گزشتہ سالوں کی نسبت سال 2020ء کے دوران گیارہ فیصد زیادہ منافع کمایا۔ مذکورہ عرصے میں امریکہ کے معروف ارب پتی اور خلائی ٹیکنالوجی کے حوالے سے مشہور ایلن مسک کی دولت میں تقریباً 129ارب ڈالر اور ایمازون کے بانی جیف بیزوس کی دولت میں تقریباً 78ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ دنیا کے دیگر خطوں کی صورتحال بھی اس سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ آکسفام کے مطابق مارچ سے اگست دوہزاربیس میں مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ارب پتی افراد کی دولت میں بیس فیصد اضافہ ہوا۔ یہ اضافہ ان خطوں کے لئے جاری ہونے والی عالمی مالیاتی ادارے کی مالی امداد کے مقابلے میں دوگنا سے بھی زیادہ ہے چونکہ اس عرصے میں کمرشل فلائٹس معطل تھیں اس وجہ سے نجی طیاروں کی فروخت میں بھی اضافہ ہوا۔ اس دولت کی ایک بڑی انسانی قیمت بھی ادا کرنی پڑی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ارب پتی افراد کی دولت نو ماہ کے دوران کورونا سے پہلے والی سطح پر آگئی ہے لیکن عالمی معیشت کو اس سطح پر واپس جانے میں ایک دہائی سے زیادہ عرصہ لگے گا۔ اس وباء نے دنیا میں شدید عدم مساوات کو مزید عیاں کردیا ہے۔ کورونا وائرس سے پہلے ہی دنیا کے اربوں لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ بتایا جارہا ہے کہ تین ارب سے زیادہ لوگوں کو صحت کی سہولیات اور تین چوتھائی مزدوروں کو کسی بھی قسم کے سماجی تحفظ تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ اس صورتحال نے انہیں وائرس سے مزید غیرمحفوظ بنادیا ہے۔ جوں جوں عدم مساوات میں اضافہ ہورہا ہے حالات مزید خراب ہوتے جارہے ہیں لیکن اس صورتحال سے آسانی کے ساتھ بچا جاسکتا تھا لیکن بدقسمتی سے موجودہ عالمی نظام امیروں کو ہی فائدہ پہنچاتا ہے۔اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ غربت کا شکار ہونے والے لوگ اگلے دس سالوں کے دوران بھی اس صورتحال سے باہر آسکیں گے۔ یہ بہت ہی سنجیدہ صورتحال ہے جس کے سیاسی اور سماجی اثرات ہوں گے۔ عدم مساوات کا مطلب ہے کہ زیادہ لوگ بیمار پڑیں گے‘ کم لوگ تعلیم حاصل کریں گے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: زاہد حسین۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)