سیاسی استحکام۔۔۔۔۔۔۔

سیاسی استحکام کی بدولت چین میں 85 کروڑ (850ملین) افراد کو غربت جیسی دلدل سے نکال لیا گیا۔ سیاسی استحکام کی خوبیوںکا دنیا نے مشاہدہ کیا کہ چین کی 88 فیصد عوام کی غربت ختم کر دی گئی اور اب وہاں صرف 1.85فیصد غریب پائے جاتے ہیں۔ اِسی طرح سنگاپور میں بھی سیاسی استحکام ہی کی بدولت معاشی انقلاب آیا۔ 1960ءمیں دنیا کے غریب ترین ممالک میں شمار ہونے والا ملک آج دنیا کی تیزی سے بڑھنے اور عالمی مقابلہ کرنے والی معیشت بن چکی ہے۔ سیاسی استحکام ملائیشیا میں بھی آیا جہاں 1960ءمیں فی کس آمدنی 234ڈالر کو بڑھا کر 11 ہزار 414 ڈالر کر دیا گیا۔پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب گیا ہے۔ تصور کریں کہ یہ قرض پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار سے بھی زیادہ ہو چکے ہیں یعنی ہر 100 روپے میں سے پاکستان کو 107 روپے قرض یا اُس پر سود کی اقساط ادا کرنے کے لئے دینا پڑ رہے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے چالیس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے (اِنتہائی کسمپرسی) کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ سیاسی عدم استحکام ہی کی بدولت 71فیصد بلوچستان اور 49فیصد خیبرپختونخوا کی آبادی غریب ہے۔ تصور کریں کہ بلوچستان کے علاقوں قلعہ عبداللہ‘ ہرنائی اور بارخان میں غربت کی شرح 90فیصد سے زیادہ ہے یعنی وہاں کے رہنے والے 90فیصد لوگ غریب ہیں۔سیاسی استحکام معاشی و اقتصادی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے نقصانات بارے ایک عالمی مطالعہ موجود ہے جس میںکہا گیا ہے کہ ”1: سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی ترقی متاثر ہوتی ہے۔ 2: سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے دہشت گردی اور جرائم بڑھتے ہیں۔ 3: سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے قومی پیداوار اور پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔پاکستان بدقسمتی سے ایک ایسی گرداب میں پھنس گیا ہے جس کی وجہ کے باعث سیاسی اتفاق رائے اور استحکام باوجود کوشش بھی ظاہر نہیں ہو رہا اور اِس عدم استحکام کی وجہ سے سرمایہ کاری متاثر ہو رہی ہے اور عوام میں پائی جانے والی غربت و بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے اور ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستان کو سیاسی عدم استحکام کے اِس گرداب سے باہر نکالا جائے۔ پاکستان کو اپنے لئے ایک ایسے طرزحکمرانی کا بھی انتخاب کرنا ہے جس میں اِس کے جملہ مسائل کاحل موجود ہو۔ جمہوریت سے بہتری اور تعمیر کی اُمید اور توقع رکھنا بے سود ہے لیکن جمہوریت میں موجود خرابیوںکے امکانات کو ختم کرکے بھی بہتری کی راہیں نکالی جا سکتی ہیں۔ سیاسی استحکام کا حصول جمہوریت میں زیادہ آسان ہوتا ہے لیکن اِس کے لئے شعوری کوششیں کرنا ہوں گی۔ تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف بیرون ملک خود کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔ ملک کے صدر اور حکمراں جماعت رہی پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری گوشہ تنہائی میں عافیت محسوس کر رہے ہیں جبکہ اِس پوری صورتحال سے 22 کروڑ (220ملین) پاکستانیوں کو کیا حاصل ہوا ہے!پاکستان میں ایک ایسی جمہوریت ہے جو چند اقدامات کا مجموعہ ہے اور اِس جمہوری شجر پر پھل پھول نہیں لگ رہے اور یہی وجہ ہے کہ جمہوریت تو ہے لیکن یہ استحکام کی بجائے عدم استحکام کا باعث ہے جو معاشی پیداوار اور اضافے کو روکے ہوئے ہے۔ سال 2018ءکے عام انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں میں 1192 ملین ووٹ اُن جماعتوں کے حصے میں آئے جو آج برسراقتدار ہیں جبکہ مجموعی طور پر 53 ملین ووٹ اُن جماعتوں کو ملے جو آج حزب اختلاف کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ اِس صورتحال میں ووٹ دینے والوں کے حصے میں کچھ نہیں آ رہا جنہوں نے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کا انتخاب تو کیا لیکن اُنہوں نے فوائد کو اپنی ذات کی حد تک محدود کئے رکھا۔ جب تک جمہوریت اِسی طرز فکروعمل پر چلتی رہے گی اُس وقت تک سیاسی استحکام نہیں آئے گا اور جب تک سیاسی استحکام نہیں آئے گا اُس وقت تک ملک میں اقتصادی ترقی بھی نہیں ہوگی چاہے اِس کے لئے کتنی ہی شدت و خلوص سے خواہشات کا اظہار اور کوششیں کی جائیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)