سال 1993 میں جب اُس وقت کے صدر مملکت غلام اسحاق خان نے نوازشریف حکومت کا خاتمہ کیا اور چھبیس مئی کو سپریم کورٹ نے حکومت بحال کی تو اِس عدالتی فیصلے کے اگلے روز نواز شریف نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد اپنے خطاب میں کہا تھا ”پاکستان میں جمہوریت اب خدا کے فضل سے صحیح معنوں میں بحال ہوئی ہے اور غیر جمہوری ہتھکنڈے کامیاب نہیں ہو سکے۔“ اسی تقریر میں انہوں نے اِس توقع کا اظہار بھی کیا کہ ”پہلی بار محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے دن بدلنے والے ہیں اور پاکستان کو اب اس ڈگر (جمہوریت) سے کوئی ہٹا نہیں سکے گا۔“ عدالت عظمیٰ سے حکومت کی بحالی اور قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد بظاہر یہی دکھائی دیتا تھا کہ اپنے تمام مسائل پر قابو پانے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو ایک نیا حوصلہ اور نئی طاقت ملی ہے اور اب ان کے راستے سے تمام رکاوٹیں ہٹ چکی ہیں یا آنے والے دنوں میں ہٹ جائیں گی لیکن اُن ہی دنوں جب صدر اسحاق خان سے صحافیوں نے ایک ملاقات میں جب یہ سوال پوچھا کہ ”کیا (واقعی) آنے والے دنوں میں ٹھہراو¿ اور استحکام کی کوئی صورت پیدا ہو گی؟“ تو صدر مملکت نے علامہ اقبالؒ کا فارسی شعر پڑھا ”گماں مبر کہ بپایاں رسید کار مغاں .... ہزار بادہ ناخوردہ در رگ تاک است۔“ (ترجمہ) اس بوڑھے کے باغ میں انگور کی ایسی ہزاروں بیلیں موجود ہیں جن سے شراب کشید ابھی کی ہی نہیں گئی۔ اس دلچسپ شاعرانہ جواب کا پیغام واضح تھا کہ آنے والے دنوں میں بہت سی آزمائشیں وزیر اعظم کی منتظر ہیں۔ یہی مسائل اور آزمائشیں تھیں جن سے پریشان ہو کر وزیر اعظم کو مبینہ طور پر اشک بار کیفیت میں دیکھا گیا۔سیاسی تناو¿ نہ صرف برقرار رہا بلکہ اِس میں اضافہ ہوتا رہا بڑھتا رہا۔ وفاق نے کوشش کی کہ پنجاب کا اختیار براہ راست وفاق کے سپرد کر دیا جائے۔ اس مقصد کےلئے آئین کی دفعہ 234اے کے نفاذ کا فیصلہ گیا تاکہ صوبہ پنجاب کا انتظام وفاق سنبھال سکے۔ وفاق نے اس مقصد کےلئے سابق گورنر پنجاب میاں اظہر کو صوبے کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا اور اس کے ساتھ ہی چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کا تبادلہ کر دیا گیا۔ صدر اسحاق خان نے اس فیصلے کی تائید سے انکار کر دیا۔ اسی ماحول میں پاکستان پیپلز پارٹی اور حزب اختلاف کی آل پارٹیز کانفرنس نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا جسے یقینی بنانے کےلئے پنجاب حکومت کی مالی اور انتظامی حمایت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی۔ حالات کچھ ایسی شکل اختیار کر گئے کہ ملک میں مارشل لا کی باتیں ہونے لگیں۔ ان افواہوں کو تقویت کور کمانڈرز کانفرنس کے اس غیر معمولی اجلاس سے ملی جو محرم کی دو چھٹیوں یعنی نو اور دس محرم کے موقع پر منعقد کیا گیا۔ پانچ گھنٹے تک جاری رہنے والی مذکورہ کور کمانڈرز کانفرنس میں ملک کے حالات پر تفصیل سے غور کیا گیا اور اس میں کئی امکانات پر غور کیا گیا تاہم حتمی فیصلہ فوج کے سربراہ جنرل عبد الوحید کاکڑ کی رائے کے مطابق ہوا کہ بحران کا حل دستور کے اندر ہی سے نکالا جانا چاہئے۔ کور کمانڈرز کانفرنس کے فوراً بعد رات گیارہ بجے فوج کے سربراہ نے صدر اور وزیر اعظم سے ملاقاتیں کیں اور تجویز پیش کی کہ مسئلے کے حل کےلئے نئے عام انتخابات کرائے جائیں۔ جنرل کاکڑ کی طرف سے آنے والی اس تجویز سے پہلے ملنے والی ان اطلاعات کی تصدیق ہوئی جو امریکہ میں پاکستان کی سفیر سیدہ عابدہ حسین کے کان میں پڑیں تھیں۔ قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد عمومی طور پر توقع کی جا رہی تھی کہ حالات پرسکون ہو جائیں گے لیکن حکومت کے خاتمے سے نواز شریف کی طاقت کو جو صدمہ پہنچا تھا‘ اس میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا اور حکومت کو اعتماد دینے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہو سکی اور بالآخر معاملات حکومت کے خاتمے پر منتج ہوئے۔ نواز شریف کی طرف سے اعتماد کا ووٹ لینا ’سیاسی پیش قدمی‘ تھی جس کے ذریعے ایوان میں قرارداد پیش کر کے اعتماد کا ووٹ لیا گیا جو سیاسی طاقت کے مظاہرے کی صورت تھی‘ جس کے مقابلے میں عمران خان کی طرف سے اعتماد کا ووٹ ’آئینی اقدام‘ ہے اور اِس کے نتائج میں سیاسی تبدیلی آ سکتی ہے۔ یہی چیز ان دونوں واقعات کے درمیان فرق پیدا کرتی ہے۔ موجودہ کوشش کی بنیاد یہ تصور ہے کہ صدر مملکت محسوس کرتے ہیں کہ وزیر اعظم کو اب ایوان کا اعتماد حاصل نہیں رہا۔ قومی اسمبلی سے اعتماد کا پہلا ووٹ ستائیس مئی اُنیس سو ترانوے کو اس وقت ہوا جب نواز شریف نے اپنی حکومت کی بحالی کے بعد ایوان سے رجوع کیا اور دو سو کے ایوان سے انہیں ایک سو تیئس ووٹ ملے تھے۔ اُنیس سو ترانوے اور دوہزاراکیس میں ممکنہ طور پر ہونے والے اعتماد کے ووٹ میں فرق یہی ہے کہ یہ کاروائی آئین کی دفعہ اکانوے کی شق سات کے تحت ہو رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ صدر مملکت کو اب یہ اعتماد نہیں رہا کہ وزیر اعظم کو ایوان کا اعتماد حاصل ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ واقعہ پہلی بار ہو رہا ہے اور وہ بھی ایسی کیفیت میں کہ جب ملک کے صدر اور وزیر اعظم دونوں کا تعلق ایک ہی جماعت سے ہے۔ سیاسی نظام میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی حکمت یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں بحران تھم جائے اور حکومت اعتماد کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کر سکے۔ ماضی میں ایک ہی بار ایسا ہوا لیکن نتیجہ مختلف نکلا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: واجد قیوم سلہری۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)