ایوان بالا کے انتخابات (تین مارچ) سے شروع ہونے والی گہماگہمیوں کا نکتہئ عروج چیئرمین سینٹ کے انتخابی مرحلے کے ساتھ ختم ہونے کی اُمید ہے تاہم سیاسی پیشگوئیاں ہو رہی ہیں کہ سینٹ انتخابات سے شروع ہونے والی حزب اختلاف کی تحریک ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گی۔ وزیر اعظم کی جانب سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے اگلے روز پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے پنجاب کے مرکز لاہور میں ڈیرے ڈالے جنہوں نے نو منتخب سینیٹر یوسف رضا گیلانی کے ہمراہ اہم ملاقاتیں بھی کیں۔ جن اہم سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کی گئی ہیں ان میں پنجاب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الہٰی‘ چوہدری شجاعت حسین اور پنجاب کے اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شامل ہیں۔ نواز لیگ کے حالیہ مشاورتی اجلاس کے بعد مریم نواز نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لانگ مارچ سمیت دیگر امور پر بات ہوئی ہے اور ہمارے علم میں آیا ہے کہ ایسے دو ایم این ایز کو گولڑہ کے ایک ادارے کے کمپاؤنڈ میں لے جایا گیا جو عمران خان کو اعتماد کا ووٹ دینے پر رضا مند نہیں تھے اور وہاں انہیں چار گھنٹے تک حبس بے جا میں رکھ کر مجبور کیا گیا کہ وہ عمران خان کو ووٹ دیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے مریم نواز کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ مریم نواز ان دو ایم این ایز کا نام بتائیں۔ ان کے مطابق جب سینٹ میں اپوزیشن کا امیدوار کامیاب ہوا تو پھر کیا ہم اس وقت ان ایجنسیز کو استعمال نہیں کر سکتے تھے۔ ان کے مطابق اپوزیشن کے موقف میں کوئی یکسانیت نہیں ہے۔موجودہ سب سے اہم سیاسی سرگرمی نئے چیئرمین سینٹ کا انتخاب ہے۔ حکومت نے بارہ مارچ کو ہونے والے اس انتخاب کے لئے تین سال سے چیئرمین سینٹ رہنے والے بلوچستان عوامی پارٹی کے صادق سنجرانی کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔ صادق سنجرانی کے خلاف بطور چیئرمین سینٹ اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تھی جو ناکام رہی تھی۔ اس وقت بھی سینٹ میں اپوزیشن کو اکثریت حاصل تھی اور یہ بات اب تک معلوم نہیں ہو سکی کہ صادق سنجرانی اکثریت نہ رکھنے کے باوجود کن ارکان سے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اس وقت سینٹ میں اپوزیشن اتحاد کو اکثریت حاصل ہے مگر یہ انتخابات اس قدر دلچسپ ہوتے ہیں کہ یہاں اکثریت رکھنے کے باوجود شکست بھی مقدر بن جاتی ہے۔ شاید اس کی بڑی وجہ سینٹ میں خفیہ رائے شماری کا طریقہ ہے۔ اس وقت اسلام آباد سے سینٹ کی جنرل نشست پر وزیر اعظم عمران خان کے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو شکست دینے کے بعد یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ کے مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے تاہم اس وقت یوسف رضا گیلانی کو نہ صرف اپوزیشن کا مکمل اعتماد حاصل ہے بلکہ ان کی جیت پر اپوزیشن کی تمام جماعتیں جشن بھی مناتی نظر آ رہی ہیں۔ مریم نواز کا کہنا ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے اجلاس میں نئے چیئرمین سینٹ کے بارے میں مشاورت کی جائے گی۔ ان کے مطابق لانگ مارچ پر بھی کل مشاورت کی جائے گی۔بنیادی سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کا اگلا ہدف کیا ہو سکتا ہے؟ اِس وقت سب سے اہم سوال یہی ہے کہ آخر اپوزیشن کا اگلا ہدف کیا ہو سکتا ہے اور وہ حکومت کو کہاں اور کس طرح کا اپ سیٹ دینا چاہتی ہے؟ حمزہ شہباز سے ملاقات کے بعد بلاول بھٹو نے واشگاف الفاظ میں بتایا کہ وہ وسیم اکرم پلس (وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار) کو ہٹانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ اراکین اسمبلی نے عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے لئے نہ مرضی سے ووٹ دیئے اور نہ اعتماد کے لئے ووٹ مرضی سے دیئے گئے۔ حمزہ شہباز نے کہا کہ اگلا ہدف صرف لانگ مارچ تک نہیں بلکہ تین سال میں جو تباہی ہوئی اسے ٹھیک کرنا ہے۔ بلاول بھٹو وزیر اعظم کی طرف سے اعتماد کے ووٹ کو مسترد کرتے ہوئے پہلے ہی یہ واضح کر چکے ہیں کہ یہ فیصلہ اپوزیشن نے کرنا ہے کہ عمران خان کب تک کرسی پر رہیں گے‘ قومی اسمبلی کے سپیکر کب تک اپنی کرسی پر براجمان رہیں گے اور یہ حکومت کب تک چلے گی اس کا فیصلہ حزب اختلاف کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے کرنا ہے۔ یقینا حزب اختلاف کو کامیابی حاصل ہوئی ہے اور اب وہ ہر جگہ حکومت پر ضرب لگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ سینٹ انتخاب میں مذکورہ کامیابی کے بعد اب آئندہ کے لائحہ عمل پر اپوزیشن جماعتوں میں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا۔ اپوزیشن ایک جانب اپنا حمایت یافتہ چیئرمین سینٹ لانے کی کوشش کرے گی تو دوسری طرف پنجاب میں تبدیلی بھی اس کے ایجنڈے پر شامل ہو گی۔ اِس منظرنامے میں کیا پنجاب میں تبدیلی ممکن ہے؟ پنجاب میں عثمان بزدار کی کمزوری اپوزیشن کے لئے فائدہ ثابت ہو رہی ہے لیکن فوج اس وقت عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے تو ایسی صورت میں اپوزیشن کو کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہو سکے گی۔ اب حکومت کے لئے ایک مشکل سفر نظر آ رہا ہے کیونکہ کسی مضبوط دیوار اور تعمیر میں بھی اگر ایک مرتبہ شگاف پڑ جائے تو پھر بار بار اس پر وہیں وار کیا جاتا ہے۔ سردست حزب اختلاف اس بات پر متحد نظر آتی ہے کہ ہر محاذ پر حکومت کو ’ٹف ٹائم‘ دیا جائے اور اپوزیشن اس مقصد کے لئے لانگ مارچ کے آپشن کی طرف بھی ضرور جائے گی۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عمیر مسعود۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)