افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلا ءکی ڈیڈ لائن یکم مئی ہے اور اس تاریخ تک امن منصوبے کا نفاذ بائیڈن انتظامیہ کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ طالبان کے ساتھ ہونے والے تاریخی امن معاہدے (29 فروری دوہزاربیس) کو ایک سال سے زائد عرصہ ہوگیا ہے جس نے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ کے خاتمے کی امید پیدا کی تھی۔ گزشتہ ایک سال کے دوران افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد کم ہوتے ہوتے ڈھائی ہزار تک آگئی ہے۔ مکمل فوجی انخلا ءکا دار و مدار بین الافغان مذاکرات اور مستقبل کے سیاسی نظام پر ہے۔ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان گزشتہ سال ستمبر میں دوحا میں مذاکرات کا آغاز ہوا تھا لیکن گزشتہ چھ ماہ میں یہ دونوں فریق ان مذاکرات کے فریم ورک پر بھی متفق نہیں ہوسکے ہیں۔ افغان طرفین اپنے اپنے مو¿قف پر سختی سے ڈٹے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے معاملات آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔ اسی دوران طالبان کی جانب سے اپنے زیرِ قبضہ علاقوں میں اضافے کی کوشش بھی کی گئی ہے جس سے ملک میں جاری کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ملک میں سول سوسائٹی کے افراد‘ صحافیوں اور دانشوروں کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس سے یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا ءکے بعد کہیں ملک ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار نہ ہوجائے۔امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے افغان امن عمل میں آنے والا ڈیڈ لاک ختم کرنے کے لئے نیا منصوبہ پیش کیا ہے جس کے تحت مشترکہ عبوری ”امن حکومت‘ ‘کے قیام کے ساتھ ساتھ خطے کے ممالک پر بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ افغان امن عمل کی حمایت کے حوالے سے مشترکہ اور جامع حکمت عملی وضع کریں۔ امریکی حکومت جنگ سے تباہ حال افغانستان سے فوجی انخلا ءپر نظرثانی کر رہی ہے اور اسی ضمن میں ملک کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے یہ منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔ مجوزہ منصوبے میں افغانستان میں جاری کشیدگی میں مرحلہ وار کمی اور پھر مکمل جنگ بندی کا ہدف رکھا گیا ہے اگرچہ امریکہ کی جانب سے افغان پالیسی پر نظرثانی ابھی مکمل نہیں ہوئی لیکن واضح رہے کہ امریکہ کو اب افغانستان سے نکلنے کی جلدی ہے لیکن حالات کی پیچیدگی کو دیکھتے ہوئے امریکہ کو اپنے اِس منصوبے کو عملی جامہ پہنانا آسان نہیں ہوگا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ بین الافغان مذاکرات میں آنے والے تعطل اور ملک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر امریکہ میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ اس بے چینی کا اظہار امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن کی جانب سے افغان صدر اشرف غنی کو لکھے جانے والے خط میں بھی ہوا ہے۔ اس خط میں بلنکن نے سخت الفاظ میں اشرف غنی پر زور ڈالا کہ وہ امن مذاکرات کی کامیابی کے لئے دیگر افغان رہنماو¿ں کے ساتھ مل کر کام کریں۔ انہوں نے اشرف غنی کو دوحہ مذاکرات کے بے نتیجہ ہونے کے خطرے اور حالات کی سنگینی سے آگاہ کیا۔ ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ افغان صدر ہنگامی حالات میں ملک کو قیادت فراہم کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں اور طالبان کے حملے بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ خط میں اختیار کی گئی سختی اس بات کا مظہر ہے کہ امریکہ مذاکرات میں آنے والے تعطل کو جلد از جلد ختم دیکھنا چاہتا ہے۔بائیڈن انتظامیہ امن عمل کو تیز کرنے کے لئے دباو¿ ڈال رہی ہے لیکن اشرف غنی کسی صورت بھی مشترکہ عبوری حکومت کی تجویز ماننے کو تیار نہیں اور یہی نکتہ تنازع کی وجہ بنا ہوا ہے۔ اس خط کے بعد امریکہ کی جانب سے آٹھ صفحات پر مبنی ایک دستاویز بھی جاری ہوئی جسے طالبان کو بھی فراہم کیا گیا تھا۔ اس امن منصوبے میں ایک قومی حکومت کے قیام کی بات کی گئی ہے جس کے متوازی کوئی دوسری حکومت یا سکیورٹی فورس نہیں ہوگی۔ اس منصوبے میں اسلامی اقدار کے تحفظ کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ اس منصوبے کو حتمی شکل دینے کے لئے امریکہ نے ترکی سے درخواست کی ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے زیرِانتظام افغان حکومت کے اعلیٰ عہدےداروں اور طالبان رہنماو¿ں کے درمیان ہونے والی ملاقات کی میزبانی کرے۔ اب تک افغان حکومت یا افغان طالبان کی جانب سے امریکہ کے امن منصوبے پر کوئی باضابطہ ردِعمل نہیں آیا ہے۔ امریکہ نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ اقوامِ متحدہ روس‘ چین‘ پاکستان‘ ایران‘ بھارت اور امریکہ کے وزرائے خارجہ اور سفرا ءکا اجلاس طلب کرے۔ افغانستان کے اسٹریٹجک محل وقوع کی وجہ سے یہ ملک ہمیشہ سے ہی بیرونی طاقتوں اور پراکسی جنگوں کا ہدف رہا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: زاہد حسین۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)