پاک بھارت تعلقات: اُمید کی دنیا۔۔۔۔۔

امریکہ میں متحدہ عرب امارات کے سفیر نے ’سٹین فورڈ یونیورسٹی‘ (پندرہ اپریل) کے ایک مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ”متحدہ عرب امارات نے کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور انہیں امید ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات ’صحت مند‘ مرحلے پر پہنچ جائیں گے جہاں دونوں ممالک ایک دوسرے سے بات کریں گے اور اپنے اپنے سفیروں کو ایک دوسرے کے دارالحکومتوں میں واپس بھیجیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ (فوری طور پر) قریبی دوست نہ بنیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ وہ (آپس میں) بات شروع کر دیں۔“ متحدہ عرب امارات کے امریکہ میں سفیر کے مذکورہ بیان کے تین دن بعد بھارت کے وزیر خارجہ ایس جیا شنکر اور پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ابوظہبی گئے تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ متحدہ عرب امارات نے بھارت اور پاکستان کے مابین امن قائم کرنے میں کیا کردار ادا کیا ہے۔پاک بھارت تعلقات ایک عرصے سے کشیدہ ہیں جس کی بنیادی وجہ کشمیر ہے۔ فروری دوہزار اُنیس میں مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں ہوئے حملے کے بعد دو جوہری ممالک جنگ کے بہت قریب پہنچ گئے تھے مذکورہ حملے میں کم از کم چالیس بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے اگرچہ جنگ تو نہیں ہوئی لیکن دونوں ممالک کے تعلقات میں جمود ضرور آیا۔ چند مہینوں بعد‘ اُسی سال یعنی پانچ اگست دوہزاراُنیس کو بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔ اس واقعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید تلخ ہو گئے لیکن گذشتہ 2 مہینوں اور بالخصوص سال دوہزاراکیس کے آغاز سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پر جمی برف پگھلنا شروع ہوئی ہے اور اس کا پہلا اشارہ رواں برس پچیس فروری کو اُس وقت سامنے آیا جب دونوں ممالک کے فوجی حکام کے مابین ایک غیر معمولی ملاقات ہوئی جس میں کشمیر لائن آف کنٹرول پر دوہزارتین میں فائر بندی کے معاہدے کی پاسداری کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ پیشرفت بہت سے تجزیہ کاروں کے لئے حیران کن خبر تھی۔ مارچ دوہزار اکیس کے وسط میں پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے تصور کو مزید حقیقت اور تقویت اُس وقت ملی جب پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ’پرامن طریقے‘ سے ماضی کے تنازعات کو دفن کر کے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا‘ جس کے فوراً بعد پاکستان نے بھارت پر سے کپاس اور چینی کی درآمد پر لگی تجارتی پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا (تاہم یہ وفاقی کابینہ نے اِس فیصلے کو واپس لے لیا)۔ اس کے بعد جب پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کورونا وائرس سے متاثر ہوئے تو بھارتی وزیرِ نے انہیں جلد صحت یابی کا پیغام بھیجا۔ سوال یہ ہے کہ اس چھوٹی سی خلیجی ریاست نے اس انتہائی مشکل کام کی ذمہ داری کیوں اٹھائی ہے اور یہ پاک بھارت پر کس قدر اثرانداز ہو گی؟متحدہ عرب امارات اب قطر کی طرح دنیا میں امن کی شبیہ قائم کرنے کا خواہشمند ہے جو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ وہ ایک جدید‘ طاقتور لبرل ریاست ہے جو دنیا میں امن قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کا اثر و رسوخ اور قبولیت اب اس قدر زیادہ ہو گئی ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت جیسے 2 جوہری مسلح ممالک کے درمیان تنازعات کے حل میں بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ متحدہ عرب امارات کیلئے سب سے اہم اس کی اپنی ’ساکھ‘ اور ’وقار‘ ہے چاہے ثالثی کے ذریعہ بھارت اور پاکستان کے درمیان امن قائم ہو یا نہ ہو۔ اسی وجہ سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بقول متحدہ عرب امارات بھارت اور نہ ہی پاکستان نے انہیں مذاکرات کے آغاز یا کسی تیسرے فریق کی ثالثی سے آگاہ کیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان دشمنی کو کم کرنے کے حوالے سے متحدہ عرب امارات کے کچھ اپنے جغرافیائی سیاسی مفادات بھی ہیں۔  لہٰذا اُسے مسئلہ کشمیر کے قابل قبول حل کی تلاش ہے جو صرف پاکستان و بھارت ہی نہیں بلکہ امارات کے بھی مفاد میں ہے جبکہ متحدہ عرب امارات کی ثالثی کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار اس سے وابستہ توقعات پر ہے۔ فی الوقت متحدہ عرب امارات بھارت اور پاکستان کے درمیان مکمل امن معاہدے تو نہیں کروا سکتا لیکن اگر دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ بھی کم ہو جائے اور دوطرفہ تجارت شروع ہو جائے تو یہ پیشرفت بھی غیرمعمولی اور اہم ہوگی۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر کامران انور۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)