سیاسی استحکام۔۔۔۔۔

اقتصادی ترقی کا انحصار 3 چیزوں پر ہوتا ہے۔ مالی وسائل سے دانشمندانہ استفادہ‘ انسانی وسائل سے دانشمندانہ استفادہ اور وقت کے ساتھ ٹیکنالوجی میں جدت۔ جہاں تک مالی وسائل کا تعلق ہے تو اِس کیلئے براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کو کامیابی کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ انسانی وسائل کی تربیت اور ہنرمندی ضروری ہوتی ہے اور اِسی سے عصری تقاضوں کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ سیاسی استحکام کیلئے اقتصادی ترقی ضروری ہوتی ہے۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ سیاسی عدم استحکام سے شرح نمو متاثر ہوتی ہے اور یہ مسلمہ اصول راز نہیں ہے۔گزشتہ 20برس میں چین میں فی کس آمدنی 959 ڈالر سے بڑھ کر 10ہزار 216 ڈالر فی کس ہوچکی ہے۔ چین کی کیمونسٹ پارٹی 1949ء سے برسراقتدار ہے۔ سنگاپور میں فی کس آمدنی جو کہ سال1960ء میں 428 ڈالر تھی سال 1990ء میں بڑھ کر 11 ہزار 861 ڈالر تک جا پہنچی۔ اِس ترقی کے پیچھے اُن کے رہنما لی کیون یاو (Lee Kuan Yew) تھے جو جدید سنگاپور کے بانی اور پہلے وزیراعظم تھے جو 31 سال (1959-1990ء) تک وزیراعظم رہے۔ ملائیشیا میں فی کس آمدنی سال جو کہ سال 1981ء میں ایک ہزار 769 ڈالر تھی سال 2003ء میں بڑھ کر 4 ہزار 461 ڈالر ہو گئی۔ مہاتر بن محمد ملائیشیا کے 22 سال (1981-2003ء) وزیراعظم رہے۔ سیاسی استحکام کا تعلق حکومت کی مدت سے بھی ہوتا ہے اور اِس کا تعلق سیاسی جماعتوں کی تعداداور حکمراں جماعت کی مضبوطی سے بھی ہوتا ہے۔ امریکہ کے تحقیقی ادارے نے ایک مطالعہ (سٹڈی) شائع کی جس میں اُنہوں نے چین‘ سنگاپور اور ملائیشیا کے سیاسی استحکام کا موازنہ بھارت‘ فلپائن‘ پاکستان اور سری لنکا سے کیا۔ اِس جائزے میں چین پہلے جبکہ بھارت آخری نمبر پر آیا۔ سب سے دلچسپ نتیجہ یہ سامنے آیا کہ جہاں سیاسی جماعتوں کا اقتدار لمبے عرصے تک جاری رہا وہاں اقتصادی ترقی بھی نسبتاً زیادہ ہوئی۔ اقتدار چاہے سیاسی ہو یا غیرسیاسی لیکن اگر اِس کا دورانیہ مسلسل اور طویل رہے تو اس کی وجہ سے اقتصادی استحکام آتا ہے۔ اقتصادی علوم (اکنامکس) کی بات کی جائے تو سیاسی جماعتوں کا استحکام سیاسی جماعتوں کے علم (پولیٹیکل سائنس کے مقابلے) مختلف نظریات رکھتا ہے۔ اکنامکس کو اِس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ برسراقتدار کون ہے اور کس قسم کی حکومت ہے یعنی وہ جمہوری حکومت ہے یا آمرانہ اور اکنامکس میں اِس بات کو بھی نہیں دیکھا جاتا کہ کوئی حکومت اپنے فیصلوں کو لاگو کرنے میں کتنی سختی یا نرمی سے کام لیتی ہے یعنی اُس کی حکمت عملی جابرانہ ہوتی ہے یا نہیں۔ سال 1970ء میں پاکستان نے تاریخ کی بلند ترین اقتصادی ترقی کی شرح (11.35فیصد) حاصل کی۔ اِس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہو کہ اُس دور میں گیارہ برس تک جنرل ایوب خان کی حکومت رہی اور ملک میں ایک خاص قسم کا سیاسی استحکام پایا جاتا تھا۔ سال 1999ء میں پاکستان کی فی کس آمدنی 454 ڈالر تھی۔ سال 2007ء میں یہ دگنی ہو کر 908 ڈالر ہو گی اور اِس تبدیلی کی وجہ بھی شاید یہی ہو کہ جنرل پرویز مشرف کا اقتدار 9 سال تک جاری رہا۔ پاکستان کو ہر قیمت پر اقتصادی ترقی چاہئے۔ پاکستان کو ہر قیمت پر سیاسی استحکام چاہئے۔ اِن دونوں ضروریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ اصول فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اقتصادی علوم (اکنامکس) کی دنیا میں اِس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ حکومت جمہوریت ہے یا آمرانہ لیکن اگر پاکستان کے مزاج کی بات کی جائے تو اِس ملک کا مزاج جمہوریت پسند ہے۔ اگر پاکستان میں جمہوریت رائج ہو بھی جائے تو یہ سوال پیدا ہوگا کہ کیا ملک کا موجودہ قانون سیاسی استحکام کے ہدف کو حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوگا جبکہ تاریخ ایک برعکس نقشہ پیش کرتی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پہلی فرانسیسی حکومت 1792ء میں قائم ہوئی جو زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی اور اِس کے بعد دوسری‘ تیسری اور چوتھی حکومتیں بھی کامیاب نہ ہوئیں۔ پانچویں حکومت نے ملک کے آئین میں تبدیلیاں کیں اور ایک نیا نیم صدراتی نظام دیا۔ 1972ء میں جنوبی کوریا نے نیا قانون منظور کیا جو اُن کی اصلاحات اور حکومتوں کا چوتھا دور تھا۔ 1999ء میں نائیجیریا نے چوتھی حکومت کے دور میں نیا قانون منظور کیا۔ گھانا‘ فلپائنزاور ہنگری میں قدر مشترک یہ ہے کہ اِن ممالک نے اپنے قانون کو ازسر نو تحریر کیا۔ ذہن نشین رہے کہ اقتصادی ترقی وہیں آتی ہے جہاں سیاسی استحکام کا دور دورہ ہو اور یہی ترقی کی واحد صورت ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)