پاکستان پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے والے جنرل ضیا کی جانب سے 1985ء میں منعقدہ عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو اس کا فائدہ جنرل ضیا کو ہی ہوا۔ اس بائیکاٹ کی وجہ سے بننے والی حکومت بلکہ پارلیمنٹ بھی ایسی تھی جو پیپلز پارٹی اور بھٹو کے حامیوں سے پاک تھی۔ 1988ء میں ہونے والے انتخابات تک پیپلزپارٹی اپنی غلطی سے سبق سیکھ چکی تھی اور دوسری جانب اسے یہ فائدہ بھی حاصل تھا کہ جنرل ضیا کا کنٹرول اب ختم ہوچکا تھا۔ انہوں نے انتخابات کو شیڈول کے مطابق منعقد کروانے کا فیصلہ کیا اور یوں پیپلز پارٹی کی جیت کی راہ ہموار ہوئی۔ سادہ حقیقت یہ ہے کہ جنرل ضیا کی وفات کے ساتھ ہی بے نظیر بھٹو کا اقتدار کی جانب سفر شروع ہوگیا تھا۔ اب کے بار جنرل مشرف نے 1999ء میں نواز شریف کو اقتدار سے ہٹایا اور 2002ء میں عام انتخابات کروائے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد سے انہوں نے کئی مرتبہ پیپلز پارٹی سے مذاکرات کیے۔ مذاکرات کا یہ سلسلہ انتخابات کے فوراً بعد ہی شروع ہوگیا تھا۔ آپ کو پیر سہاوا کے ریسٹورنٹ میں مشرف اور امین فہیم کی اتفاقاً ہونے والی ملاقات یاد ہوگی۔ بہرحال وہ معاملات زیادہ آگے نہیں بڑھے۔ جلد ہی پیٹریٹس مشرف سے آملے اور انہوں نے اپنی حکومت بنالی تاہم بات چیت اور رابطے جاری رہے۔ برطانوی اخبار گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانوی دفترِ خارجہ پہلی مرتبہ 2004ء میں بینظیر بھٹو سے رابطے میں آیا۔ ’مارک لیال گرانٹ مشرف کا پیغام لے کر بے نظیر کے پاس دبئی گئے۔ ان کے شوہر کو جیل سے رہا کردیا جائے گا۔ شاید اب انہیں مشرف کے ساتھ کام کرنے پر غور کرنا چاہئے۔‘ بینظیر بہت ہی محتاط تھیں لیکن پھر مطالبات کی فہرست کا بھی تبادلہ ہوا۔ سال 2007ء موسمِ گرما میں بینظیر اور مشرف کی دبئی میں ملاقات ہوئی۔ اسی سال اکتوبر میں محترمہ وطن واپس آگئیں۔ مذکورہ مذاکرات کے حوالے سے کئی یادداشتیں لکھی جاچکی ہیں اور ان میں اب کچھ بھی خفیہ نہیں لیکن میں جب بھی اس دور کے بارے میں پڑھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ آخر بے نظیر کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا اور نواز شریف کو کیوں نظر انداز کیا گیا؟ شاید اس کی ایک وجہ مجموعی ماحول بھی تھا۔ غیر ملکی افواج افغانستان میں افغان طالبان سے لڑ رہی تھیں جبکہ پاکستان کو عسکریت پسندی اور شدت پسندی کا سامنا تھا۔ مشرف کی حمایت کرنے والی مغربی طاقتیں پاکستان میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے خلاف لبرل اور ترقی پسند قوتوں کو آگے لانا چاہتی تھیں۔ اس پورے منظرنامے کے لحاظ سے پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے بجائے پیپلز پارٹی بالکل موزوں تھی تاہم ایک دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ مشرف کے لئے ان لوگوں سے بات چیت کرنا مشکل تھا جنہیں انہوں نے خود اقتدار سے بے دخل کیا تھا۔ وہ سال 2002ء میں بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ کام کرنے کیلئے تیار تھے اور 2007ء میں جب مشرف بینظیر کے ساتھ ”پاور شیئرنگ ڈیل“ کے حوالے سے بات چیت کر رہے تھے تو انہوں نے ستمبر میں نواز شریف کی واپسی کا پروگرام بھی خراب کردیا تھا۔ نواز شریف کو بے نظیر کی وطن واپسی کے بعد ہی واپس آنے کی اجازت دی گئی اور ایسا بھی اس وقت ممکن ہوا جب جنرل مشرف پر بے حد دباؤ ڈالا گیا۔ یہاں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ نواز شریف مشرف کے ریٹائر ہونے سے دو دن قبل ہی وطن واپس آئے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ دوہزارسات میں مشرف اور بے نظیر کے درمیان معاملات کی نسبت نواز شریف سے مشرف کی مخاصمت زیادہ ذاتی نوعیت کی تھی۔ نواز شریف نے مشرف کو نکال باہر کرنے کی کوشش کی لیکن مشرف نے انہیں اقتدار سے بے دخل کرکے قید کردیا اور پھر جلا وطن کردیا۔ بینظیر کے ساتھ اس طرح کے کوئی معاملات نہیں رہے۔ نواز لیگ کیلئے مشرف کی وہی حیثیت تھی جو بینظیر کے لئے جنرل ضیا کی تھی۔ نواز شریف اور بے نظیر کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی کوششوں میں بڑی پیشرفت جنرل ضیا کی وفات اور مشرف کی آرمی چیف کے عہدے سے ریٹائرمنٹ کی صورت میں سامنے آئی۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: عارفہ نور۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام