امریکی انخلأ: پاکستان کیلئے مشکلات۔۔۔

افغانستان سے آمدہ اطلاعات کے مطابق غیرملکی فوجی دستوں نے دارالحکومت کابل کے نزدیک باگرام ائربیس (فوجی اڈہ) خالی کر دیا ہے جو گذشتہ بیس سال سے امریکہ اور اتحادی فوجیوں کے زیراستعمال تھا۔ اس انخلا کا ممکنہ طور پر یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا عنقریب ہونے والا ہے۔ صدر جو بائیڈن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ امریکی افواج گیارہ ستمبر تک افغانستان سے واپس آ جائیں گی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دارالحکومت کابل کے شمال میں واقع باگرام کے وسیع و عریض فوجی اڈے کو ایک ایسے وقت میں خالی کیا جا رہا ہے جب طالبان افغانستان کے متعدد علاقوں میں پیش قدمی کر رہے ہیں۔ باگرام فوجی اڈہ 1980ء کی دہائی میں سوویت افواج نے افغانستان پر حملے کے بعد قائم کیا تھا۔ یہ کابل سے چالیس کلومیٹر شمال میں ہے اور اس کا نام ایک قریبی گاؤں کے نام پر ہے۔ امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج نے دسمبر 2001ء میں یہ اڈہ حاصل کیا اور اسے دس ہزار فوجیوں کی رہائش کے قابل بنایا۔ باگرام کے 2 رن وے ہیں جن میں سے نیا رن وے ساڑھے تین کلومیٹر سے زیادہ طویل ہے جہاں بڑے کارگو اور بمبار طیارے اُتر سکتے ہیں۔ امریکہ کے خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اس میں طیاروں کی پارکنگ کیلئے 110جگہیں ہیں جن کی حفاظت کیلئے بم پروف دیواریں بنائی گئی ہیں۔ اِس کے علاوہ باگرام میں پچاس بستروں پر مشتمل ہسپتال ہے‘ ایک ٹراما مرکز‘ تین آپریشن تھیٹرز اور ایک جدید دانتوں کا کلینک بھی موجود ہے۔ اس کے ہینگرز اور عمارتوں میں وہ قید خانے بھی ہیں جہاں تنازعے کے عروج کے دنوں میں امریکی فوج کی زیرِ حراست لوگوں کو رکھا جاتا تھا۔ اسے کیوبا میں واقع بدنامِ زمانہ امریکی فوجی جیل کے نام پر ’افغانستان کا گوانتانامو‘ کہا جاتا تھا۔ ذہن نشین رہے کہ باگرام اُن چند مقامات میں سے ایک ہے جس کا تذکرہ امریکی سینیٹ کی رپورٹ میں بھی کیا گیا جس کے مطابق امریکی خفیہ ادارہ ’سی آئی اے‘ اِن حراستی مراکز میں مبینہ طور پر القاعدہ سے تعلق رکھنے والے افراد سے تشدد کے ذریعے تفتیش کیا کرتی تھی۔امریکہ کی افغانستان سے واپسی پاکستان کیلئے بڑا امتحان (آزمائش) ہے۔  سول ایوی ایشن اور کارگو دستاویزات کے مطابق اٹلی نے اپنی فوجی گاڑیاں اور دیگر سازوسامان کراچی انٹرنیشنل ائرپورٹ پر اس طیارے کے ذریعے پہنچایا‘ جہاں سے یہ سازوسامان بذریعہ کراچی بندرگاہ اپنی منزل کی طرف روانہ کیا گیا۔ ذہن نشین رہے کہ افغانستان میں نائن الیون کے بعد اٹلی کے پچاس ہزار فوجی تعینات رہے۔ماضی میں ایک معاہدے کے تحت امریکہ رسد میں مدد فراہم کرنے کے بدلے پاکستان کو سالانہ فیس ادا کرتا رہا‘ جسے ’اِتحادی سپورٹ فنڈ‘ کہا جاتا تھا۔ محکمہئ خزانہ کے مطابق دوہزاراٹھارہ تک پاکستان نے چودہ ملین (ایک کروڑ چالیس لاکھ) ڈالر اس مد میں وصول کئے لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد کے بعد اس امداد کو بند کر دیا گیا۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی اور رسد کی معطلی اس وقت پیش آئی جب چھبیس نومبر دوہزاردس کے روز پاک افغان سرحدی چوکی سلالہ پر امریکی حملے میں چوبیس پاکستانی فوجی شہید ہوئے۔ اس حملے کے فوری بعد پاکستان نے افغانستان میں موجود بین الاقوامی افواج کیلئے پاکستان کے زمینی راستوں سے جانے والی رسد بند کر دی۔ اس حملے کے بعد سینیٹر رضا ربانی کی سربراہی میں بننے والی سینیٹ کی وزارت ِدفاع اور قومی سلامتی کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ مستقبل کی حکومتیں قومی سلامتی کے حوالے سے کوئی بھی زبانی معاہدے نہ کریں۔ فوجی تعاون سمیت جن بھی یادداشتوں پر دستخط کیے جائیں ان سے متعلقہ محکموں کو آگاہ رکھا جائے۔ موجودہ صورتحال میں امریکی انخلأ ہو رہا ہے اور اِس عمل میں زیادہ تر سامان تو افغانستان ہی میں تباہ یا ناکارہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ افغانستان نے یہ سامان پاکستان کو دینے پر اعتراض کیا تھا۔ باقی سازوسامان بذریعہ جہاز روانہ ہو رہا ہے (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ممتاز شاکری۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)