وفاقی بجٹ اور اہداف۔۔۔۔

جھوٹ اُس عمل کو کہا جاتا ہے جس میں دوسروں کے اعتماد اور بھروسے سے کھیلا جاتا ہے جبکہ حکمت عملی اُس عمل کو کہا جاتا ہے جس میں کوئی شخص انفرادی یا ادارہ اجتماعی طور پر لائحہ عمل تشکیل دیتا ہے۔ تاش کے پتوں کے ایک کھیل کو پوکر (Poker) کہا جاتا ہے‘ جس میں داؤ (جوئے) پر لگی ہوئی رقم کو جھوٹا تاثر (bluff) دیکر بڑھایا جاتا ہے اور ہارنے والا شخص ایسا تاثر دیتا ہے کہ جیسے اُس کے پاس جیت کے لئے درکار پتے ہوں۔ بلف (bluff) کھیلتے ہوئے تاش کا کھلاڑی اپنے مدمقابل حریف کو ایسے تاثرات دیتا ہے جیسے اُس کے پاس بہتر اور جیتنے لائق پتے موجود ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہں ہوتا اور یوں ایک سیدھا سادا کھیل اعصاب کی مضبوطی سے جیتی جاتی ہے۔ بجٹ 2021-22ء میں محصولات (ٹیکسوں) سے ہونے والی آمدنی 5 ہزار 829 ارب روپے دکھائی گئی ہے۔ ٹیکس وصولی کے ادارے ’فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)‘ کے اپنے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق جاری مالی سال 2020-21ء میں 4.7 کھرب روپے ٹیکس اکٹھا کیا گیا تو جو ’ایف بی آر‘ چارہزارسات سو ارب روپے ٹیکس اکٹھا کر سکا اُس سے اِس بات کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ آئندہ مالی سال (2021-22ء) میں پہلے سے 24فیصد زیادہ ٹیکس اکٹھا کرے گا بالخصوص ایک ایسی صورتحال میں جبکہ وزارت خزانہ نے اعلان کر رکھا ہو کہ وہ نئے مالی سال میں کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کرے گی۔ ذہن نشین رہے کہ حکومت کی جانب سے ’ایف بی آر‘ کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ یعنی مزید 1100 ارب روپے ٹیکس وصول کرے تاکہ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والے اہداف حاصل کئے جا سکیں لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے ایسا کوئی بھی لائحہ عمل یا طریقہئ کار نہیں دیا گیا جس پر عمل کرتے ہوئے اِس قدر ٹیکس اکٹھا کیا جائے گا۔ بجٹ 2021-22ء میں کہا گیا ہے کہ صوبائی سرپلس 570 ارب روپے ہوں گے۔ بجٹ بنانے والوں کو توقع ہے کہ چاروں صوبے مل کر وفاق کو 570 ارب روپے واپس کریں گے۔ بجٹ دستاویز کے مطابق پنجاب 125 ارب روپے‘ سندھ خسارے کے باوجود 25 ارب روپے‘ خیبرپختونخوا کے بجٹ میں آمدن و اخراجات برابر دکھائے گئے ہیں جبکہ بلوچستان کے خسارے کا بجٹ 84 ارب روپے کا ہے۔ اِن چاروں صوبوں کو ملنے والے وفاقی مالی وسائل میں بچت کو جمع کیا جائے تو یہ 16 ارب روپے بنتے ہیں جبکہ حکومت کو اُمید ہے کہ 570 ارب روپے حاصل ہوں گے۔  بجٹ 2021-22ء میں نجکاری سے 252 ارب روپے کی آمدن ظاہر کی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے ممکنہ نجکاری کیلئے جن اداروں کی فہرست جاری کی گئی ہے اُن کے بارے میں واضح نہیں کہ آئندہ 12 ماہ کے دوران اِن میں سے کن کن کی نجکاری کی جائے گی اور یہ 252 ارب روپے کہاں سے حاصل ہوں گے؟ کیا پاکستان کے پاس واقعی نجکاری سے متعلق کوئی حکمت عملی موجود ہے؟ وفاقی حکومت نے بجٹ دستاویز میں آمدن کے جو ذرائع ظاہر کئے ہیں وہ درست نہیں اور اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ بجٹ کا جو خسارہ ظاہر کیا گیا ہے اصل خسارہ اُس سے زیادہ ہوگا۔ ذہن نشین رہے کہ برآمدات و تجارت کا عدم توازن مالی سال 2021ء میں 31 ارب ہے جبکہ اِس سے قبل 23 ارب تھا اور جب تجارتی خسارہ زیادہ ہوتا ہے تو حکومت کے پاس زرمبادلہ کے ذخیرے پر دباؤ بڑھتا ہے اور اِس کے منفی اثر سے ملکی درآمدات و برآمدات متاثر ہوتی ہیں۔حکومت کیلئے تشویش کی بات تین چیزیں ہیں۔ ایک مالی خسارہ (فسکل ڈیفیسیڈ)‘ دوسرا گردشی قرضہ اور تیسرا تجارتی خسارہ۔ حکومت کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ گردشی قرض بنا بجلی کی قیمت میں اضافہ کئے ادا کرے لیکن اگر کوئی جادو ہو تو ایسا ممکن ہے۔۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)